بے بی کٹ


 وہ شروع ہی سے نٹ کھٹ اور شریر تھی جھوٹ بولنا تو جیسے اس کی ادا تھی بڑے سپنے دیکھنا اور بڑی بڑی باتیں کرنا اس کے محبوب مشاغل میں سے تھا۔ ایک دفعہ وہ ہمارے گھر ایک چھوٹی سی دعوت پر مدعو تھی ہمارے گھر کے صحن میں وہ اپنی زلفوں سے کھیلتی ہوئی میری ماں کے پاس آکر بیٹھ گئی جو آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ اپنی بڑی انگلی کنالی کے کناروں پر پھیرتے ہوئی بولی۔ آنٹی مجھے تو ایسے آٹا گوندھنا نہیں آتا۔

تم اگلے گھر میں جا کر کیا کرو گی۔ میری ماں نے ہلکے سی تلخ لہجے میں پوچھا۔ میں تو آٹا گوندھنے والی مشین لے لوں گی۔ ماں نے آخری بار آٹے کو کنالی میں پٹختے ہوئے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے بھی ماں کے لئے ایک دبی سی مسکان اپنے ہونٹوں پر پھیلا دی۔ اس نے زلفوں کو جو دوپٹے کی حدوں سے باھر آ چکی تھیں جھٹکے سے پیٹھ پر پھینکا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اسے بھی ہر لڑکی کی طرح اپنی زلفوں سے بہت پیار تھا اسی لئے وہ ہر پانچویں دن اپنی امی کے ہاتھوں سے روز اس فتنے میں سرسوں کا تیل ڈلوایا کرتی تھی۔

بار بار آنکھوں پہ آ کر گرتی لٹوں کو اس نے برابر کٹوا رکھا تھا۔ تیل میں رچ کر اس کی سیاہ زلفیں اور بھی نرم و ملائم ہو جاتی تھیں۔ اسی لئے تو وہ انہیں اپنے بادامی دوپٹے میں ایک خزانے کی طرح چھپا کر رکھتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس کی کشادہ پیشانی پر برابر کٹی لٹوں سے رستا ہوا سنہری تیل سونے کی طرح چمکا کرتا تھا۔ وہ اکثر مجھ کو ایسی ہے حالت میں ملتی تھی۔ ایسا کتنی ہی بار ہوا کہ اس کی زلفیں اس سے پہلے میری جھولی میں آن گرتی تھیں۔

دراز گھٹائیں کہیں الجھ نہ جائیں اس ڈر سے میں اس کی گھنیری زلفوں کو پہلے ہی تازہ بیلی ہوئی سویوں کی طرح اپنے ایک بازو پہ ڈال لیتا تھا۔ بد قسمتی سے اس لڑکی کو منفرد نظر آنے کا بہت شوق تھا اس کے لئے یہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ بھاری اور لمبی زلفوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے آخر کار اس نے ایف اے مکمل کر لیا۔ چونکہ اسے پڑھنے کا شوق تھا اس لیے اس نے دوسرے شہر میں اپنی زلفوں سمیت داخلہ لے لیا۔ دنیا سے الگ نظر آنا اس کا جنون تھا۔

شاید اسی لئے۔ ابھی اسے پرائے شہر گئے چند مہینے ہی گزرے تھے۔ کہ اس کے اندر کی ماڈرن عورت جو خود کو ہر قیمت پر دنیا سے جدا دیکھنا چاھتی تھی۔ بیدار ہو گئی۔ میری طرح وہ بھی متوسط گھرانے سے تھی۔ گاڑی بنگلے کی خماری جو اس عمر میں اکثر درکار ہوتی ہے اس کے پاس نہ تھی۔ اور اسے ماڈرن بھی نظر آنا تھا۔ ایسی صورت میں آسان حل اس کے پاس اس کی زلفیں ہی تھیں۔ جسے وہ کسی اچھوتے ڈیزئین میں کٹوا کر کچھ دیر اس مصنوعی دنیا میں سانس لے سکتی تھی۔

اس نے وھی کیا لمبی سیاہ زلفوں کو ایک ہی جھٹکے میں اپنی ذات پر آدھا قربان کر دیا۔ وہ جب اپنی آدھی نسوانیت کٹوا کر پہلی بار اپنے شہر لوٹی۔ تو میں نے دیکھا نہ تو وہ بادامی دوپٹہ نظر آ رہا تھا اور نہ ہی وہ خزانہ جسے وہ آنچل میں چھپا کر رکھتی تھی۔ ماں سے تیل ڈلوانے بیٹھی تو ماں خفگی کے انداز میں زور زور سے اپنی ہتھیلی چلانے لگی۔ اور کبھی کبھی زلفوں کو جھنجھوڑ کر کہہ دیتی کہ کیا ضرورت تھی انہیں کٹوانے کی یہ تو عورت کا حسن ہوتا ہے۔

جھوٹ بولنا جونکہ اس کی عادت تھی اس نے اماں کے ساتھ بھی وھی جھوٹ بولا جو اس نے میرے ساتھ بولا تھا۔ اماں۔ پڑھائی میں خلل پڑتا ہے انہیں سلجھانا مشکل تھا۔ یہ سنتے ہی اماں کی ہتیلی پھر سے تیز چلنے لگی۔ چھٹیاں ختم ہو چکی تھیں۔ اس نے بچی ہوئی زلفوں کو سمیٹا اور پھر سے اس شہر بے مہار کا رخت سفر باندھ لیا۔ وقت گزرتا گیا اور شہر بے مہار کی جدتوں کا رنگ اس پر اور بھی پکا ہو کر چڑھنے لگا۔ اس کی زلفوں کے نئے سٹائل کو اس کی اسی قماش کی سہیلیوں نے بہت سراھا۔

ایک نے تو سرشاری میں اسے گلے لگا کر چوم لیا اور ساتھ ہی اس کے کان میں ایک نئی ماڈرن پھونک مار دی کہ اگر تم بے بی کٹ بنوا لو تو تم پر بہت سوٹ کرے گا۔ خدا کی قسم تمہارا چہرہ بہت پرفیکٹ ہے۔ تم ایک دم باربی ڈول لگو گی۔ عورت ٹھری ستائش کی ماری اس نے وہیں سے اڑان بھری اور سیدھا پارلر جا کر بے بی کٹ بنوا لیا اور پونیورسٹی کی کھلی فضا میں کود گئی۔ وقت گزرتا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میرے اور اس کا تعلق اس کی زلفوں کی مانند چھوٹا بہت چھوٹا ہوتا چلا گیا۔

چند سال ہوتے ہیں کہ اس پری وش سے ملنا نصیب ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ میرے پہلو میں بیٹھتی۔ میں نے حسب عادت اپنا بازو اس کی زلفوں کے نیچے کر دیا۔ تاکہ تازہ بیلی ہوئی سویوں کو اپنے ہاتھوں پر ڈال سکوں۔ لیکن افسوس کہ میرے ہاتھ میں کچھ نہ آیا۔ میں نے اس دن یہ بھی محسوس کیا۔ کہ اس کے لہجے میں عجیب سی اجنبیت اور بلا کا تکلف ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے کوئی شکوہ کرتا۔ میں نے بہت جلد بھانپ لیا۔ کہ ایک سادہ سی لڑکی نے منفرد نظر آنے کے لیے محض اپنی زلفیں ہی نہیں کاٹیں۔ بلکہ! اپنی خالص مادری زبان بھی کٹوا لی ہے۔ بالکل بے بی کٹ کی طرح

وسیم رضا، سعودی عرب
Latest posts by وسیم رضا، سعودی عرب (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).