ہم چُپ ہیں
سوال تو یہ بھی بنتا تھا کہ جب بانی پاکستان کو شدید بیماری کی حالت میں زیارت سے کراچی لایا گیا تو اُنکو ائرپورٹ سے لانے کے لئے خراب ایمبولینس کیوں اور کس نے بھیجی! یہ سوال آج تک ایک حل طلب معمہ ہی ہے، قوم نے اس سوال پر بھی چُپ سادھ لی۔ تلخ سچ تو یہ ہے کہ گڑ بڑ تو ہم میں ہی ہے یعنی ہم عوام میں۔ لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا، ہم چپ رہے۔ پاکستان کی آزادی کے شروع میں ہی اقتدار کی میوزیکل گیم شروع کر دی گئی کبھی اس کو بٹھا دیا کبھی اُسکو بٹھا دیا کبھی اس کو گرا دیا کبھی دوسرے کو گرا دیا۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے پہلے تو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا اور کچھ عرصے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی بھی برطرف کر دی یہاں سے اقتدار کی رسہ کشی میں غیر جمہوری سوچ اور سازشی ہتھکنڈوں کا آغاز ہُوا مگر بحثیت قوم ہم چپ رہے۔ ایوب خان نے پہلا غیر آئنی اقدام اٹھاتے ہوئے پہلا مارشل لا لگا دیا، مگر ہم چپ رہے۔ ایوب خان نے گیارہ سالہ دور حکومت میں اپنی ذاتی نفرت اور بغض کی آگ میں بنگالیوں میں اتنا احساس محرومی پیدا کر دیا کہ انہیں پاکستان جیسا ملک اپنا نہیں لگتا تھا غیر لگنے لگا مگر بے حسی دیکھئے کہ ہم چپ رہے۔
حتی کہ ایوب نے محترمہ فاطمہ جناح تک کو غدار قرار دلوا دیا اور تاریخ کی بدترین دھاندلی کروا کر محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن ہروا دیا، مگر ہم چپ رہے۔ پھر یحیی خان آیا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گیا، مگر ہم چپ رہے۔ یحیی نے ہونے والے الیکشن کے بعد مجیب الرحمن کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے لیت و لال سے کام لیا جو آخر کار بنگلہ دیش بننے کی بنیادی وجہ بنی اور ملک ٹوٹ گیا، مگر ہم چپ رہے۔ پھر ضیا صاحب مارشل لا لگا کر آ گئے مگر ہم چپ رہے۔
ضیا دور میں غیر شفاف عدالتی کارروائی کے نتیجے میں بھٹو پھانسی چڑھا دیا گیا، مگر ہم چپ رہے۔ پھر اٹھاسی سے لے کر نناوے تک ٹوٹتی بنتی اسملیاں اور چوہے بلی کا کھیل جاری رہا جمہوریت کے نام پر پس پردہ آمرانہ نظام چلتا رہا سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے، سب جانتے بوجھتے بھی ہم چپ رہے۔ پھر ایک مشرف نے میرے ہم وطنوں کا نعرہ لگا کر ایک بار پھر آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، مگر ہم چپ رہے۔ اس کے بعد سے لے کر آج اور اب تک کے مختلف سیاسی منفی اقدامات کے پیچھے یہی غیر جمہوری ہاتھ اور مائنڈ سیٹ کارفرما ہے، مگر ہم حسب روایت چپ ہیں۔
2103 کے الیکشن کے نتیجے میں نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم منتخب ہو گئے ایسے میں ایک بار پھر مختلف حیلوں بہانوں سے سازشوں کا بازار گرم ہُوا اور آزادانہ منتخب وزیراعظم اور جمہوریت کو گالیاں دی جانے لگیں کبھی دھرنے کبھی لاک ڈاؤن آخرکار ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح منتخب وزیاعظم اپنی مدت پوری نا کر سکا اور ایک غیرشفاف اور مشکوک انداز سے برطرف کر دیا گیا، یہ سب کھیل تماشا ہمارے سامنے ہوتا رہا مگرہم خاموش رہے۔
2018 کے الیکشن کی شفافیت پر بہت بڑے سوالیہ نشان ہیں نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں موجودہ سیلکٹڈ نظام پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں، مگر بحثیت قوم ہم ایک بار پھر ہمیشہ کی طرح چُپ ہیں ہم نے دیکھا کہ کیسے ایک سیاسی راہنما اور منتخب وزیراعظم اس لُٹے ہوئے گھر کو دوبارہ بسانے کی پاداش میں دربدر کر دیا گیا۔ ایک ایسا وزیاعظم جس نے فقط دعوے ہی نہیں کیے بلکہ اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود ڈلیور کیا اور، پاکستان سے اندھیرے مٹا دیے، پاکستان میں اکانومی کا پہیہ چلا دیا، پاکستان کا انٹرنیشنل درجہ ایک سلجھی ہوئی قوم کے طور پر بحال کرنے کی کوشش کی، کراچی کو روشنیاں لوٹا دیں، پورے پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا، ملک کو ایک بہتر معیشت بنا دیا، ان سب جرائم کی شاید سزا تو بنتی تھی اور ایک اور جرم جو شاید سب سے بڑا جرم ہو کہ سویلین سوپرمیسی کی بات کرتے ہوئے خالص جمہوریت کی ڈیمانڈ کر دی، جرائم کی اتنی طویل فہرست تھی کہ انہیں غدار قرار دیا جانا لازم سمجھا گیا، فاطمہ جناح کے بعد ایک بار پھر ایک لیڈر کو غدار قرار دیا گیا، مگر ہم چپ رہے۔
نواز شریف سمیت آج تک جس نے بھی اس بوسیدہ اور گھسے پٹے نظام کے خلاف صف آرا ہونے کی کوشش کی یا بات کی یا تو اُسے نشان عبرت بنا دیا گیا یا پھر بنانے کی کوشش کی گئیمگر عوام کبھی ٹس سے مس نا ہُوئے بہتر ہے اس سوئی ہوئی قوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے جو قوم خود اپنا حال نا بدلنا چاہے تو کوئی کیسے اُس قوم کی تقدیر جگا سکتا ہے۔ 1947 سے لے کر اب تک ہم ایک سوئی ہوئی قوم ہیں ہم پہلے کبھی نہیں بولے تو اب کیسے بول سکتے ہیں۔
غلامی کے طوق کو زیور سمجھ کر پہننے والی قوم کا ترقی یافتہ اقوام میں نا مقام ہُوا کرتا ہے نا کوئی نام ہُوا کرتا ہے۔ جاگ جاؤ جاگ جاؤ یہ آواز شاید ہم سن کر بھی نہیں سُننا چاہتے نا سمجھنا چاہتے۔ ہم تو وہ قیدی ہیں جسے غلامی سے شاید عشق ہو گیا ہے۔ ہم چپ تھے ہم چپ ہیں اور چپ ہی رہیں گے مگراگر یونہی چپ ہی رہنا ہے اور کچھ نہیں کہنا کچھ نہیں کرنا تو چلو مر ہی جاتے ہیں اور یوں بھی ہم بھلا کون سے زندوں میں ہیں
- کیا ہماری مٹی کی تاثیر خراب ہے؟ - 02/11/2019
- شکریہ عمران خان - 17/09/2019
- تم سوچتی بہت ہو - 01/09/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).