سیاسی قیادت، قبائلی علاقے اور نیا بحران


جن خدشات سے دل ہلکان ہو رہے تھے وہ تلخ حقائق کی صورت میں ڈھل چکے ہیں۔ جس دھڑکے سے ذہن و دل میں بے چینی کی لہریں دوڑ رہی تھیں وہ آخر کار ایک سنگین صورتحال کے قالب میں ڈھل کر ایک نئے قضیے کو جنم دے چکی ہے۔ ارض وطن نت نئے قضیوں، جھگڑوں اور آویزشوں میں کافی خودکفیل ہے کہ ایک کی تلاش کرو تو کئی مل جاتے ہیں۔ یہ خرابی کہاں سے پیدا ہوئی وہ ایک طویل بحث ہے کہ جس کی طوالت کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ خرابی روز اول سے ہمارا مقدر ہے کہ جو آئے روز ہماری حرماں نصیب کو گہرا کرتی چلی جارہی ہے۔

وطن عزیز میں ایک چیز کی بہت افراط ہے کہ یہاں بھانت بھانت کی زبانیں تبصرہ آرائی کے فن میں طاق ہوچکی ہیں کہ جن سے تعصب اور جانبداری کے انگارے اگلتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے حالات ایک نہایت ٹھنڈے دل و دماغ سے لیس صاحبانِ فکر و دانش کے متقاضی ہیں لیکن صد افسوس کہ ملک میں یہ ایک جنس نایاب ہے یا اگر معدودے چند ایک ہیں بھی تو ان ان کی شنوائی نہیں ہو پاتی۔ قبائلی علاقے ایک عرصے تک آتش زیر پا رہے ہیں۔ اپنوں کی نادانیوں اور پرائی جنگ میں ایندھن بننے کا نتیجہ اس بارود و خون اور تباہی و بربادی سے عیاں ہے جو چار عشروں سے قبائلی علاقوں میں رقم ہو چکی ہے۔

مذہب کے لبادے میں چھپے دہشت گردوں نے اس خطے کو اپنا مرکز بنایا تو پھر تباہی کی وہ تاریخ رقم ہوئی کہ جس کی ہولناکی نے خیبر سے لے کر کراچی کو جھلسا کر رکھ دیا۔ ایک صبر آزما اور کٹھن امتحان کے بعد قبائلی علاقے امن کی طرف گامزن ہوئے ہی تھے کہ ایک نئی خوفناک صورتحال اس کے درپے ہو چکی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ جو عرف عام میں پی ٹی ایم سے جانی پہچانی جاتی ہے بنیادی طور پر بدنام زمانہ پولیس افسر راؤ انوار کے جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کے ہاتھوں قتل کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئی تاہم آج یہ تنظیم اور ریاستی ادارے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔

شمالی وزیرستان میں پیش آنے والا واقعہ اس امر کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ حالات تیزی سے بگاڑ کی راہ پر گامزن ہیں اور ایک انارکی کی صورت بہت تیزی سے پیدا ہور ی ہے۔ انارکی کی یہ صورت خاکم بدہن کسی نئے سانحہ کو جنم نہ دے۔ مقتدر ادارے اور پی ٹی ایم کے درمیان تنازعہ اب ایک بدصورت شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جو ملکی کی داخلی سلامتی اور یک جہتی کے لیے کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں اور ان تنازعات کا جلد سے جلد حل قبائلی علاقوں کو بالخصوص اور پاکستان کو بالعموم پیش آ مدہ سنگین صورتحال سے محفوظ رکھ سکتے ہیں جو قضیے میں اضافے سے پیدا ہوسکتی ہے۔

شمالی وزیرستان میں تازہ ترین واقعہ پر بہت سے پردے گرے ہوئے ہیں جو حقائق اور سچائی کی راہ کی رکاوٹ ہیں۔ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخواہ سے انضمام ہو چکا ہے اور وہاں کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات جولائی میں منعقد ہونے والے ہیں۔ تاہم قبائلی علاقوں میں میں صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کے بل کے پاس ہونے کے بعد شاید جولائی میں ہونے والے انتخابات تعطل کا شکار ہو جائیں۔ یہ بل تمام پارلیمانی جماعتوں کی حمایت و تائید سے پاس ہوا۔

اس بل کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ ایک پرائیویٹ ممبر بل تھا جسے ایک آزاد ممبر محسن جاوید داوڑ نے پیش کیا اور جس کی حمایت حکومتی جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کی۔ یہ وہی محسن داوڑ ہے جس پر پی ٹی ایم کے کارکنوں کے ساتھ فوجی چوکی پر حملے کا الزام ہے۔ قبائلی علاقے میں پی ٹی ایم کی سرگرمیوں پر مقتدر اداروں کو بہت سے تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کی پر رائے منقسم ہے اور اس کا منقسم ہونا کچھ عجیب نہیں کہ انسانی معاشروں میں ایسا اختلاف ایک عام سی بات ہے۔

تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں حالات نے جس تیزی سے پلٹا کھایا ہے وہ نہایت تشویشناک صورتحال کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جمہوری ممالک میں کسی بھی درپیش چلینج سے نمٹنے کے لیے عوام کی منتخب قیادت کو آگے بڑھ کر آگ پر پانی ڈالنے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ پاکستان کی منتخب قیادت کو بھی اسی روش پر کاربند رہنا چاہیے اور ایک فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایک منتخب پارلیمان اور ایک جمہوری حکومت کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

وزیراعظم عمران خان قبائلی علاقوں میں ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا کافی اثر و نفوذ ہے۔ عمران خان صاحب کو فرنٹ سے لیڈ کرنا چاہیے اور اس قضیے کو حل کرنا چاہیے جس کی بنیاد پر ریاستی ادارے اور پی ٹی ایم ایک دوسرے کے سامنے مزاحم ہیں۔ عمران خان اگر ایک فعال کردار ادا کرتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مسائل حل نہ ہوں۔ اس سلسلے میں پی پی پی اور پی ایم ایل نواز بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار ہوں گی کیونکہ تمام تر سیاسی اختلاف کے باوجود یہ سیاسی جماعتیں کبھی بھی ملکی سلامتی کو لاحق خطرات سے مقابلے کے لیے پیچھے نہیں رہ سکتیں۔ پاکستان کے مسائل ماضی میں بھی سیاستدانوں اور پارلیمان نے حل کیے اور مستقبل میں بھی یہی حل کرنے پر قادر ہوں گے بشرطیکہ وہ اسے حل کرنے میں سنجیدہ ہوں۔ جب سیاست دان اور پارلیمان غیر فعال ہوئے تو ملک پر بحران کچھ یوں سایہ فگن رہے کہ

ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج
لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج
ایک مسلسل کرب میں ڈوبے ہوئے بام و در
جس طرف دیکھو اندھیرا جس طرف دیکھو کھنڈر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).