جہیز کے خلاف مہم جاری رہنی چاہیے


چند ماہ قبل سوشل میڈیا پہ ”جہیز خوری بند کرو“ کے نام سے ایک مہم چلائی گئی، جس میں تقریباً تمام نامور پاکستانی اداکاروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اداکاروں نے اپنے ہاتھوں پہ ”جہیز خوری بند کرو“ لکھ کر تصاویر شیئر کیں اور جہیز کے نام پہ کھیلے جانے والے گھناؤنے کھیل کی بھرپور مذمت کی۔ بہت سے لوگوں نے اس مہم کی حمایت کی تو کئی لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور کچھ بے پرواہ لوگوں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کوئی رائے نہ دی۔

یوں دن گزرتے گئے اور یہ قصہ پرانا ہوتا چلا گیا۔ اور اب یہ بحث بالکل ختم ہوچکی ہے۔ جوں ہی معروف شخصیات سوشل میڈیا پہ کچھ شیئر کرتی ہیں تو وہ چیز ٹرینڈ بن جاتی ہے، چاہے وہ کسی نئے سٹائل کے کپڑے ہوں یا کسی سنگین موضوع پر نظرِ ثانی۔ اور میں اور آپ بھی انھی ٹرینڈز کو فالو کرتے ہیں۔ وقت گزرتا جاتا ہے اور اُسکے ساتھ ساتھ ٹرینڈز بدلتے جاتے ہیں۔

آج دوبارہ اس مدعے کو اُٹھانے کا مقصد بحثیت قوم ہماری نا اہلی پر روشنی ڈالنا ہے کہ کیسے ہم ہر معاشرتی برائی پہ صرف تب ہی غور و فکر کرتے ہیں جب وہ موضوع ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ بن چکا ہوتا ہے اور جب یہ ٹرینڈ بدل جاتا ہے تو ہماری توجہ کا مرکز بھی بدل جاتا ہے۔ اور پھر جہیز خوری جیسے اہم معملات پہ چلنے والی مہم اِن مسائل کا حل نکالنے میں ناکام کیوں رہتی ہے؟

”جہیز ایک لعنت ہے“ یہ مشہور قول تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ ماضی میں یہ رواج پروان چڑھا کہ لڑکے والے شادی سے پہلے لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرتے تھے اور چند تو یوں کرتے تھے کہ عین شادی والے دن اپنے ناجائز مطالبات لڑکی کے گھر والوں کے سامنے رکھتے جو کہ اُنھیں مجبوراً پورے کرنے ہی پڑتے۔ مگر اب یہ رواج بدلتا نظر آرہا ہے۔ جو والدین مجبوری میں اپنی بیٹیوں کو جہیز دیتے تھے اب ان کے ساتھ ساتھ ایسے والدین بھی ہیں جو اپنی خوشی سے اس سوچ کے تحت جہیز دیتے ہیں کہ جہیز اُن کی بیٹیوں کو سسرال میں عزت کا مقام دلوائے گا۔

اور اُن کو ساری زندگی ’جہیز نہ لانے‘ کے طعنے نہیں سننے پڑیں گے۔ آج کل مہنگے ایپلائینسز، گاڑی، پراپرٹی اور دیگر اشیاء کو خوشیوں کی ضمانت قرار دے دیا گیا ہے کہ جس کے بغیر ایک مستحکم ازدواجی زندگی کی شروعات کرنا نامکمن سا ہو گیا ہو۔ یہ معاملہ صرف اُن والدین کا نہیں ہے جن کی بچیاں کم پڑھی لکھی ہیں بلکہ خود مختار اور اعلیٰ تعلیم یا فتہ لڑکیوں کے والدین بھی بدقسمتی سے اسی سوچ کے مالک ہیں۔

وہ یہ بھول چکے ہیں کہ نصیب میں اگر خوشیاں ہوں تو وہ جہیز کے ٹوکن کے بغیر بھی ملیں گی۔

22 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں صرف 22 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ اور اِن 22 فیصد میں سے 18 فیصد لوگ سوشل میڈیا صارفین ہیں۔ کیا اِن 18 فیصد لوگوں تک ایسی مہم چلا کے آگاہی پہنچانا جہیز خوری جیسے مسائل کا حل ہے؟ حل صرف اور صرف اِن جرائم کے خلاف قانون ساذی ہے۔ ایک خاص رقم مختص کی جائے اور اس سے زیادہ جہیز دینے یا مطالبہ کرنے پر پابندی عائد کی جائے اور اِن قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت سزایں مقرر کی جایں۔

خدارا معاشرے کی اس بُرائی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ معاشرے کا ہر باپ مقروض ہوئے بغیر اپنی بیٹی کو رخصت کر سکے اور بیٹی کو خدا کی رحمت سمجھ کر پالے نہ کہ اُسکی پیدائش پر مایوس ہوکر اُسکے جہیز کی فکر کرنا شروع کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).