نریندر مودی کا نیا بھارت اور امن کی شکست


بھارت میں منعقد کردہ 2019 کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی 350 سیٹوں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ جبکہ ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کانگرس محض 85 سیٹیں حاصل کر سکی۔ نریندر مودی ایک بار پھر سے بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ یاد رہے 2014 کے عام انتخابات کے نتیجے میں بھی بی جے پی نے اکثریت حاصل کی تھی اور مودی وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ 2014 کے مقابلے میں اب کی بار مودی سرکار زیادہ اکثریت کے ساتھ آئی ہے۔

دنیا کے بدلتے سیاسی حالات اور خاص طور پر پیسیفک ایشیاء کی بدلتی سیاسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سب ایشیائی ممالک کی نظر بھارت کے عام انتخابات پر تھیں۔ گوکہ بہت سی پیش گوئیاں کی جا چکی تھیں کہ مودی ایک بار پھر سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر سیاست غیر یقینی ہوتی ہے۔ ا س میں آخری وقت تک بازی پلٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔ امریکہ، روس، خلیجی ممالک سمیت ایشیائی ممالک چین، پاکستان، ایران اور افغانستان کی نظریں بھارتی انتخابات پر تھیں۔

پاکستان میں عمران خان کی سرکار آنے کے بعد بہت واضح تبدیلی اوربھارت کی طرف دوستی اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے نیک خواہاشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ مگر چونکہ بھارت میں انتخابات قریب تھے اور وہاں کے انتخابات میں پاکستان مخالف نظریات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے عمران خان کی کوشش کے باوجود بھی شروع کے عرصے میں کوئی مثبت جواب نہ مل سکا۔ پاکستان بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں مگر پھر کسی موڑ پر کوئی ایسا حادثہ ہو جاتا جس سے دونوں ملکوں میں موجود لوگوں کے بیچ نفرت پروان چڑھنے لگتی ہے۔

اس کے نتیجے میں کوئی پاکستان پر چڑھائی کی باتیں کرتا ہے تو کوئی غزوہ ہند کی تیاری کی۔ عوام کے اندر خوف وہراس اور ایک دوسرے سے نفرت اور اپنے ملک کے ساتھ وفاداری نبھانے کا ایک مقابلہ رچایا جاتا ہے اور پھر اس سب کے نتیجے میں امن کی بات کہیں دور رہ جاتی ہے۔ حال ہی میں انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے پلوامہ میں دہشت گردی کے واقعہ نے دونوں ملکوں کو جنگ کے دوراہے پر لاکھڑا کیا۔ بھارتی جوانوں کی شہادت نے جہاں بھارت کے اندر موجود لوگوں میں غم و غصہ ابھارا تو وہیں بغیر ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر ڈالنے پر پاکستان کی عوام کی طرف سے بھی ایک رد عمل سامنے آیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کی طرف سے اپنے لوگوں کاغصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بالاکوٹ پر چڑھائی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی ائیر فورس نے دوسرے دن بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دونوں ہی طرف ایک خوفناک لہر ُاٹھی اور دونوں طرف موجود انسانیت دشمن لوگوں نے جنگ کی حمایت کر دی۔ بہرحال یہ معاملات اسی طرح چلتے رہے اور دونوں ہی طرف سے قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ اس دوران امریکہ نے مداخلت کی اوردونوں طرف کی قیادت کو جنگ سے باز رہنے کو کہا۔ اس سب کے نتیجے میں مودی نے اپنی الیکشن کیمپین شروع کر دی اور مزید تیزی کے ساتھ پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو تقویت دی گئی۔ بھارتی میڈیا جو کہ کار پوریٹ بزنس بن چکا ہے جہاں صحافت برائے نام ہے اور اخباراتی ادارے اور ڈیجیٹل میڈیا مکمل طور پر بزنس مین طبقے کے پاس آگیا ہے اس نے مودی کی الیکشن کیمپین کو خوب تقویت بخشی۔ گویا اخلاقی اور صحافتی اقدار کی جو دھجیاں پلوامہ اور پھر بالا کوٹ کے معاملے پر اڑائی گئیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ 2014 کے انتخابات میں بھی کارپوریٹ انڈیا کے بڑے بڑے مگر مچھوں نے میڈیا کے ذریعے مودی الیکشن سپورٹ فراہم کی تھیں۔ اور 2019 میں مزید طاقت اور پیسے کے ساتھ الیکشن خریدے گئے۔ سوشل میڈیا کیمپین پر کھربوں روپے خرچ کیے گئے۔ مودی کے 2014 ء کے انتخابی منشور میں معیشت، کسانوں کی ترقی، بے روزگاری کے خاتمے کا اعلان، دوکروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا مگر حال میں ہی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ان پانچ سالوں میں مودی اپنے کیے گئے وعدوں میں سے ایک کو بھی پورا نہ کر سکا۔

بھارت میں کسان شدید بحران کا شکار ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہو گئے۔ معاشی ترقی کا گراف نیچے آگیا۔ افراط زر کئی فیصد بڑھ گیا مگر پھر بھی 2019 ء میں ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود مودی کا ایک بار پھر سے سرکار میں آنا اس بات کی نوید ہے کہ سامراجی کھلاڑیوں کے لیے ایک فاشسٹ مودی کی جیت کس قدر ضروری تھی۔ اپوزیشن کی طرف سے کچھ خاص ٹف ٹائم نہیں دیا گیا۔ راہول گاندھی کے اندر قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

اس کا فائدہ مودی نے خوب اٹھایا۔ رافیل طیاروں جیسے سکینڈل سے خود کو بچا کر بالا کوٹ میں ملی شرمندگی کے بوجھ کے ساتھ اور پانچ سالوں میں سوائے نفرت، انتہاپسندی اور ہندو نیشلیزم پروموٹ کرتے کہ مودی نے کچھ کام نہیں کیا مگر نتیجتاً 2019 میں ایک واضح اکثریت حاصل کرنا مودی کے سیاسی بصیرت کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ راہول گاندھی کی نالائقی کو بھی واضح کرتا ہے۔

بھارتی انتخابات میں دھاندلی کا ایلیمنٹ تاریخ میں کم دیکھنے کو ملا ہے۔ مگر اس بار ڈیجیٹل ووٹنگ پر زیادہ انحصار تھا اور بھارت میں انتخابات کا طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے۔ وہاں موجودہ حکومت اور بیورو کریسی ہی انتخابات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ عبوری حکومت کا طریقہ کار اور ججوں کو اٹھا کر الیکشن کمیشن میں لگانے کا رواج وہاں موجود نہیں ہے شاید اس لیے وہاں دھاندلی کا شور نہیں پڑتا اور ہارنے والی جماعت سڑکوں پر آکر 126 دن دھرنے بھی نہیں دیتی۔

وہاں بیلٹ باکس چوری نہیں ہوتے، وہاں فیصلے اور نتائج کسی کی فون کال پر نہیں کیے جاتے۔ 2019 کے انتخابات میں 33 فیصد امیدوار قتل، ریپ، سمگلنگ، منشیات فروشی میں نامزد ملزم ہیں مگر ان کی جیت اور عوام کا ان کو ووٹ دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاست میدانی سطح پر کھیلی جاتی ہے۔ اس میں دونوں فریقوں کے پاؤں میں موجود ایڑھی کا سائز ایک جیسا ہونا چاہیے۔ تاہم سینکڑوں امیدوار پی۔ ایچ۔ ڈی بھی ہیں اور سینکڑوں ہی ایم۔ فل بھی ہیں۔

مودی کی جیت کے بعد بہت سے لوگوں کی پیش گوئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں گئے اورکشمیر کا مسئلہ حل ہوگا۔ جبکہ حقیقت میں یہ لوگ خوش فہمی کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ پرامیدی اچھی چیز ہے مگر حقائق اور سیاسی اتار چڑھاؤ کو سمجھنا پر امید رہنے جتنا ہی ضروری ہے۔ مودی کے الیکشن جیتنے کے بعد بھارت کے اندر نسلی اور فرقہ پرستی کی ایک نئی لہر اٹھے گی۔ برسوں سیکولر نیشنلزم کا پرچار کرنے کے بعد اب کی باری ہندو نیشنلزم کو پروموٹ کیا جائے گا۔

مودی اینٹی پاکستان مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آیا ہے اوروہ پاکستان مخالف نظریے کو مزید بڑھاوا دے گا۔ مودی ایک ہوشیار، سفاک سیاستدان ہے۔ بالاکوٹ کے بعد پاکستان کو مہینوں ہائی الرٹ پر رکھ کر 0 ماہ تک 25 فیصد اضافی ڈیفنس پر خرچ کر ایا گیا۔ جبکہ مودی نے اپنے ڈیفنس بجٹ میں 4 فیصد کمی کر دی۔ وہ جانتا ہے پاکستان پھنس چکا ہے۔ معاشی طور پر پاکستان کی کمر ٹوٹ چکی ہے سفارتی سطح پر بھی پی۔ ٹی۔ آئی جو جھنڈے گاڑ رہی ہے اس کا صرف نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

پیسیفک ایشیاء گروپ ) PAG) میں امریکہ اور برطانیہ نے مل کر بھارت کو FATF کا ہیڈ بنا دیا ہے۔ خلیجی ممالک کے ساتھ بھارت سفارتی سطح پر مضبوط ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کے بعد ایران اور بھارت کے تعلقات میں مزید پختگی آئی ہے۔ سب سے غور طلب بات ہے کہ امریکہ نے ایران پر تجارتی پابندیاں لگائیں مگر چاہ بہار پر پابندی نہیں لگائی۔ اس کو اسی طرح رہنے دیا۔ افغانستان میں بھارت امریکہ کا فرسٹ ایلائی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت ابھی تک پاکستان کو مات دیتا آرہا ہے کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ جائے گا۔

مودی کی کوشش ہو گی کہ آرٹیکل 370 کو ضم کیا جائے تاکہ تقسیم ختم کی جائے۔ گلگت بلتستان اور بلوچستان بھارت کا اگلا ٹارگٹ ہیں اور ایران کی مدد سے ہر حربہ استعمال کریں گے۔ مودی ہندو نیشنلزم کے خواب کو عملی جامہ پہنائے گا اور آپودیا میں رام ٹیمپل بنے گا اور مسلمانوں کی زندگی کو عذاب بنانے اور پاکستان کو مزید کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔

اس سب کے پس منظر میں عمران خان کو یہ مشورہ دینے والا کہ مودی الیکشن کے بعد امن کی طرف پیش قدمی کرے گا اور دونوں ملکوں کی ڈیپ اسٹیٹ اس بات کو عملی طورپر کامیاب ہونے دے گی وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہا ہے۔ تاریخی پس منظر میں بے نظیر نے اپنی پہلی حکومت میں راجیو گاندھی کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور سیاچن کے معاملے پر تمام تر تحفظات کو ختم کر اس بات پر آمادگی ظاہر کی گئی کہ بھارت اپنی فوجیں سیاچن سے واپس بلائے گا۔

لیکن اس وقت کی ڈیپ اسٹیٹ کو یہ بات پسند نہ آئی اور بے نظیر اور اعتزاز احسن پر سیکھوں کو لسٹیں بھیجنے اور ملک کے لیے سیکورٹی رسک قرار دیا گیا اور ساتھ میں غداری کا الزام لگا کر امن کی کوشش کو سبوتاژ کیا گیا۔ آگرہ کانفرنس میں مشرف کی شمولیت اور امن کی طرف پیش قدمی کو بھی میڈیا اور مقتدر اداروں کے ذریعے نقصان پہنچایا گیا۔ عمران خان مت بھولیں کہ پاکستان ایک سیکٹرین اسٹیٹ بن چکا ہے اور عمران خان اور مودی دونوں فاشسٹ سیاستدان ہیں اور جب فاشسٹ سیاستدان ملتے ہیں تو پھر نفرت، تباہی اور انسانیت سوز مظالم پروان چڑھتے ہیں اور امن کی بات مضحکہ خیز لگتی ہے۔ اس سب کے درمیان امن و سلامتی اور سفارتی تعلقات کی کوئی واضح نوید نظر نہیں آرہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).