جب مہدی حسن موٹر مکینک بنے


موسیقار عظیم خان ٹال والے :۔ مہدی حسن خان صاحب نے اپنے مستری بننے کی تفصیل کچھ اس طرح سے بیان کی کہ ایک دفعہ ان کے ابا نے انہیں بتایا کہ ”ہمارے پاس جو رقم اور زیورات تھے، وہ ہم بیچ کر کھا چکے ہیں۔ اب صرف دس ہزار روپے رہ گئے ہیں۔ لہذا اب پرسوں سے لکڑیوں کے ٹال کی دکان کھولنی ہے۔ “ اس دن مہدی حسن صاحب نے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو تو سوچا ”وہ آدمی جو ریاستوں میں بیٹھ کر مہاراجوں پہ حکومت کرتے تھے، ٹال لگائیں گے۔

” انہوں نے کہا“ تو لوگ آپ کو عظیم خان ٹال والے ”کہیں گے۔ انہوں نے کہا“ اب گانے بجانے کا دور نہیں، بس عزت سے روزی کمانا ہے ”مگر بیٹے کو یہ منظور نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا، “ وہ بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں اور پیسے مانگے، باپ نے مذاقاً دس روپے دے دیے۔ ان دس روپوں سے مہدی حسن صاحب کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔ چیچہ وطنی، ساہیوال (پنجاب) میں اپنی پہلے ہی ایک دکان جو سڑک کنارے تھی، الاٹ ہو چکی تھی۔

مشینری سے واقفیت تھی کیونکہ راجہ مہاراجوں کے موٹروں کا فورمین کے طور پر کام کرنے کا شوق نوجوانی سے ہی تھا۔ ان دس روپوں سے ڈیڑھ روپے میں ہوا بھرنے کا پمپ کے علاوہ ایک رینج، پیچ کس، لوشن اور کچھ پرانے ٹائرز وغیرہ خرید کے دکان میں ڈالے اور موٹر سائیکل کی مرمت کی دکان کا بورڈ لگا کر کام شروع کر دیا۔ صرف تین چار دنوں میں ہی روزانہ بارہ سے سولہ روپے کی آمدنی ہونے لگی۔ جس میں سے روزانہ پانچ روپے والد صاحب کے ہاتھ پر گھر کے خرچ کے لیے رکھتے۔ یہ سال 1948 کو تھا۔ جب ساڑھے تین روپے من گندم ملتی تھی۔ ایسے میں جب پہلی بار پانچ روپے والد کے ہاتھ میں رکھے تو وہ خوشی سے رو پڑے کہ کس طرح بیٹے نے والد کی عزت و آبرو پر داغ نہ آنے دیا۔ یہ سوچ کر کہ ”کہاں رنچھوڑوں کے استاد اور کہاں عظیم خان ٹال والے۔ “

ڈیڑھ سال کی سخت محنت کے بعد مہدی حسن صاحب نے 38 ہزار روپے جمع کر لیے۔ پھر اسی شعبے میں مزید ترقی کے خیال سے سکھر جاکر ایک کمپنی (غلام حسین کمپنی) میں کام شروع کیا اور ڈیزل انجن فٹنگ کے ڈپلومے حاصل کیے۔ کام اتنا ہو گیا کہ بقول مہدی حسن ”میرے ہاتھ کے فٹ کیے انجن تین سو سے اوپر کی تعداد میں ہو گئے۔ “ اب ان کی دکان کا خرچہ نکال کے پانچ چھ ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی ہونے لگی۔ تاہم روزی کے چکر میں انہوں نے موسیقی کے عشق کو ہرگز نہیں بھلایا تھا اور مسلسل ریاض کو جاری رکھا۔ ساتھ ہی جسمانی ورزش کے ذریعہ سانس کو مضبوط رکھنے کا کام بھی کرتے رہے۔ غالبا یہی زمانہ تھا جب 1951 ء میں مہدی حسن صاحب کی شادی برادری کی کم عمر لڑکی شکیلہ سے ہو گئی۔ جن کی عمر بقول مہدی حسن صاحب گیارہ برس کی تھی۔

اب مستری مہدی کا کام بڑھتا جا رہا تھا۔ اس شعبہ میں مزید تعلیم اور ڈپلوموں کو حاصل کرنے کے بعد مہارت کے ساتھ ساتھ درجہ بھی، ڈیزل، آئل انجن فٹ کرنے کے بین الاقوامی فرگوسن کمپنی کے ڈپلومے نے انہیں اس کام میں بھی معتبر بنا دیا۔ کام کے سلسلے میں بہاولپور ریاست میں بھی رہے اور خوشحالی کے قدرے اطمینان کے بعد بھائی پہ کاروبار کو چھوڑ کر پہلی بار پاکستان کے فن و ثقافت کے مرکز لاہور جانا ہوا۔ جہاں فن سے متعلق ہستیوں مثلا منیر حسین، فضل حسین وغیرہ کے ساتھ بھی بیٹھکیں رہیں مگر ساتھ ہی ایک ایسے شخص سے بھی ملاقات ہوئی جن کا نام محمد یوسف تھا۔ انہوں نے مہدی حسن کے گانے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے کہا، ”یہ چھوڑ دو، میرے ساتھ کام کرو۔ ان کے پاس دس مربعے زمین سرگودھا میں بنجر پڑی تھی۔ مذہبی آدمی تھے۔ گانے کو اتنا اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ مہدی حسن صاحب نے کہا“ یہ مت کہیں کہ یہ کام برا ہے۔ کیونکہ قسمت والوں کو موسیقی ملتی ہے۔ ”

یہ 1949۔ 51 کا زمانہ تھا۔ مہدی حسن صاحب نے کام کی حامی بھری اور اسی کام کو کہ جس کو کمپنیوں نے مکمل ہونے کے لیے تین سال کا وقت دیا تھا، مہدی حسن صاحب نے آٹھ ماہ میں کر دکھایا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ زمین سرسبز ہو کے لہلہانے لگی۔ جب فصل پکی تو اڑتیس ہزار روپوں کی آمدنی ہوئی۔ بنجر زمین سونا اگلنے لگی۔ شیخ صاحب نے بہت روکا لیکن مہدی حسن صاحب نے کہا ”اب میرا کام ختم ہوا۔ مجھے جانے دیں۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ کام محض راستہ ہے“ منزل نہیں ”لیکن جو کام بھی کیا اس کو محنت سے کیا۔

اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ”میرے دل میں شہرت کا اتنا خیال نہیں تھا لیکن ایک بات ضرور تھی کہ جو کام کرواس کو الف سے یے تک سمپور کرو یعنی کہیں سے رکاوٹ نہ ہو اور کامیابی حاصل ہو۔ “ ان کا پکا ایمان تھا کہ ”ہمت مرداں مدد خدا“ انہیں یقین تھا کہ سُر آزمانے کا موقع ملے گا اور اسی یقین کے ساتھ وہ ٹریکٹر کے پنکھے میں بھی سُروں کو ڈھونڈ لیتے تھے۔ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں۔ ”ٹریکٹر جب چلاتا تھا تو اس کے پنکھے میں بھی خاص سُر نکلتا ہے، میری ناک میں حلق میں اتنی مٹی جا رہی ہوتی اس وقت بھی سُر لگاتا تھا۔ اس وقت بھی میرا ریاض چل رہا تھا۔ “

انہوں نے کڑی دھوپ میں محنت کی اور عزت سے پیٹ بھرا مگر فن کو سستا نہیں بیچا۔ اس کی ایک وجہ باپ کی نصیحت تھی۔ کہتے ہیں ”یہ انہوں (والد صاحب) نے منع کیا تھا کہ گلی کوچوں میں جہاں چاہا کہیں پہ بیٹھ کر (گانا) سن لیا اور معاوضہ کچھ بھی نہیں دیا۔ “ مراد یہ تھی کہ اپنا فن سستا مت بیچنا، استاد عظیم خان کو پتہ تھا کہ ان کے بیٹے کے لئے مدھر سریلی آواز کی کیا اہمیت ہے۔ وہ اس کی بے توقیری نہیں برداشت کر سکتے تھے، لیکن اب وقت آ گیا تھا سالہا سال موسیقی کے ریاض اور سُروں کی صحیح قیمت وصول کرنے اور عالم کو مسحور کرنے کا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).