جگاڑ پر ایک غیر سیاسی مضمون


\"aliکل صبح نو بجے سے دس بجے تک، ایک گھنٹہ پڑھانے کے بعد میں نیوز لائن کے آفس جانے کے لئے بس اسٹاپ پر آیا، اور حسب معمول اسٹاپ پہ کھڑے لسّی والے کی ریڑھی کے پاس پہنچا تو اُس نے مجھے کُرسی پیش کی، جسے میں نے قبول نہ کیا اور پھر وہ میرے لئے لسّی کا گلاس بھرنے لگا۔ خلاف معمول، اُس نے مٹّی کے مٹکے سے ڈھکنا اُٹھانے کے بجائے پلاسٹک کی پیلی بالٹی سے ایک موٹا کپڑا اور ڈھکن اُٹھایا۔ اس دوران مجھے اپنی طرف بغور دیکھتے ہوئے پا کر اُس نے اپنے اس عمل کی توضیح پیش کی۔ اور ملی جُلی سرائیکی اور اُردو میں کہا، جس کا مطلب جو میں سمجھا وہ یہ تھا کہ صبح لسّی بناتے ہوئے برف کی بلاک کا ایک بڑا ٹُکڑا اُس کے ہاتھ سے مٹکے میں گرا جس سے مٹکے میں کریک آگئے ، اس لئے لسّی فوراً بالٹی میں ڈالنی پڑی۔ میں نے کہا، ‘تو خیال سے لسّی بناتے نا، مٹکا ہی توڑ دیا، وہ لسّی بنانے کے اُس کے پیشے پر میری ماہرانہ رائے کے اظہار پر مجھے عجیب سے انداز سے دیکھنے لگا، جس سے جز بز ہوکر میں نے فوراً کہا،‘چلو کوئی نہیں، لسّی تو بچ گئی نا! البتّہ اب مٹکا نیا لینا پڑے گا’۔ لیکن وہ میرے تبصرے سے کوئی خاص متاثر نہیں لگ رہا تھا۔

\"lassi\"آج جب میں اسٹاپ پر آیا تو اُس نے اسی انداز میں میرا استقبال کیا اور مٹکے کی طرف اشارہ کیا، تو میں نے کچھ سوچھے سمجھے بغیر کہا، ‘اچھا تو نیا مٹکا لے لیا ۔۔۔!’ اُس نے میری بات کاٹ کر کہا، ‘نہیں جی، اسی کو لیپ کرکے چھید بند کردیا ہے، کام چل گیا ہے میں نے ہنستے ہوئے کہا، چلو اچھا ہوا، خرچہ بچ گیا، ‘تمھاری ایک فوٹو لوں؟’

(سیاسی مفہوم اخذ کرنے والے کی رائے سے لکھاری کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments