بھید بھرے انسانوں کے بھید کھولتا ہوا عاصم بٹ کا ناول


عاصم بٹ کے نئے ناول ’’بھید‘‘ کے مطالعے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو ناول رواں صدی میں سرعت کے ساتھ فکشن کی نئی منزلوں کا سراغ پانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ نئی منزلیں ایسی ہیں، جن سے اردو ناول پچھلی صدی کے دوران یکسر نابلد نہیں تو کم از کم ناآشنا ضرور رہا ہے۔ پچھلی صدی کے اردو ناول میں ہیئت یا فارم کو وہ اہمیت بالکل نہ دی گئی جو اس نئی صدی میں منظرِ عام پر آنے والے ناولوں کا اختصاص بنتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان ناولوں کا اسلوب ، زبان و بیان ،کردار سازی اور کہانی کو مختلف اور منفرد انداز سے کہنے کا ڈھب ایسا ہے جو انہیں گزشتہ صدی کے اردو ناولوں سے ممتاز کرتا ہے۔

عاصم بٹ کا فکشن تخلیق کرنے کا سفر لگ بھگ تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ دو افسانوی مجموعوں کے علاوہ اب تک ان کے تین ناول منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول دائرہ تقریباً اٹھارہ برس پہلے2001ء میں چھپا تھا تو اس نے اپنے بہت سے پڑھنے والوں کو چونکایا تھا، کیوں کہ وہ فارم اور سلوب کے لحاظ سے، اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول تھا۔ اس ناول میں عاصم بٹ کہانی کہنے کے لیے ایک اچھوتی اور دل چسپ فارم کے لیے سرگرداں دکھائی دیتے تھے۔ ’’دائرہ‘‘ میں وہ فارم ان کے ہاتھ آتے آتے رہ گئی تھی۔ اسی لیے اُس ناول میں ایک دو آنچ کی کمی سی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن عاصم بٹ اپنی دُھن کے پکے اور سچے لکھاری ہیں، اسی لیے ان کی پر خلوص کوشش اور محنت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اور اب ان کا نیا ناول ’’بھید‘‘ سامنے آیا تو اسے پڑھ کر یوں لگا کہ اپنی دُھن میں سرگرداں ناول نگار کو اس کی مطلوبہ فارم میسر آگئی ہے۔ ’’دائرہ ‘‘ پڑھ کر جو کمی محسوس ہوتی تھی، ’’بھید‘‘ میں انہوں نے اس کی پوری طرح تلافی کردی ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ’’دائرہ‘‘ سے ’’بھید‘‘ تک آتے آتے ان کا تخلیقی سفر آگے کی منزلوں کی جانب گامزن ہے اور اسے ان کے فکشن کے لیے ایک نیک شگون قرار دیاجاسکتا ہے۔

ناول’’بھید‘‘ میں فارم ہی وہ چیز ہے، جس میں اس ناول کی زندگی قید ہے۔ تارڑ صاحب نے اسے بھول بھلیاں سے تشبیہ دی ہے لیکن میرے لیے وہ ایک پراسرار اور تاریک غلام گردش جیسی ہے، جس میں بھٹکتے ہوئے ہماری ملاقات کئی انسانی ہیولوں اور سایہ نما انسانوں سے ہوتی ہے۔ ان کے بھدے قہقہے ، ان کی تاسف بھری سرگوشیاں ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہیں۔ ان کے دل چسپ مکالمے ہمارے دل و دماغ پر دستک دیتے ہیں۔ ہم جب اپنی آنکھیں مچمچا کر غلام گردش کی تاریکی میں انہیں غور سے دیکھتے ہیں تو ان کےخدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ وہ ہمیں حرکت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ہمیں اپنے ہی بھائی بند معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ان کی کہانیاں غلام گردش کی دیواروں پر اس طرح رواں دواں نظر آتی ہیں ، کہ ناول کاقاری خود کو بھی اس کا ایک حصہ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ یہ ناول کہانیوں کی ایک ایسی غلام گردش ہے،جس سے باہر نکلنے کا راستہ بھی ہمیں صرف ناول نگار ہی سجھاتا ہے۔ ورنہ شاید ناول کا قاری اس میں سر پٹختا رہ جاتا اور اسے باہر نکلنے کا راستہ ہی نہ مل پاتا۔

حوان رلفو کے ناول Pedro Pramoکی طرح ’’بھید‘‘ بھی ایک بظاہر معمولی اور عام سے واقعے سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے، جسے اردو فکشن میں خاصا دوہرایا گیا ہے۔ عاصم بٹ نے اسے اپنے ناول کے نقطہِ آغاز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جس کے بعد Pedro Pramo ہی کی طرح ’’بھید‘‘اپنی اصل تخلیقی جست لگاتا ہے اور دھیرے دھیرے کامل اعتماد کے ساتھ کہانی کو فن کی ایسی بلندی تک لے جاتا ہے، جو اپنےپڑھنے والے کو قدم قدم پر نت نئی حیرتوں اور مسرتوں سے ہم کنار کرتی چلی جاتی ہے۔

تارڑ صاحب نے بجا طور پر کہا ہے کہ عاصم بٹ شہر لاہور کی واڈکا کو جانتا ہے اور وہ اسے جانتی ہے۔ اسی لیے شہر لاہور کے گلی کوچے،بازار، باغات، عمارتیں اور دیگر جگہیں مختلف طریقوں اور مختلف شکلوں سے بار بار عاصم بٹ کے فکشن میں نمودار ہوتے ہیں اور اپنی دل نشیں چھب دکھاتے ہیں۔ ناول’’بھید‘‘میں دکھائی دینے والی شہر لاہو ر کی چھب اتنی گہری اور متاثر کن ہے کہ اس کی چکاچوند سے تادیر باہر نکلنا ممکن نہیں رہتا۔

میری ناقص رائے میں زبان دنیا کی سب سے زیادہ پامال اور آلودہ شے ہے۔ دنیا بھر کے صنعتی اور کیمیائی فُضلے سے کہیں زیاد آلودہ شے،اور شاید آسمانوں سے اترنے والے صحیفے اس کی اسی آلودگی اور کثافت کو کم کرنے کی ایک برتر کوشش قرار دیے جاسکتے ہیں۔ ایک فکشن لکھنے والا بھی اپنے تئیں یہی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس پامال اور غلاظت میں لتھڑی چیز کو بلندی اور ترفع عطا کرنے کے لیے اپنے سے جتن کرتا ہے۔ اس لیےیہی زبان ایک فکشن لکھنے والے کے لیے اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے۔ عاصم بٹ بہت پہلے اپنےاولین ناول دائرہ میں ہی اپنا مخصوص اسلوب وضع کرچکے تھے۔ ’’بھید‘‘ میں ان کااسلوب اور زبان و بیان بہت نکھر ا نکھرا محسوس ہوتا ہے۔ اس میں ایسی تازگی اور کشش محسوس ہوتی ہے، جو مجھے عاصم بٹ کے ہاں بالکل نئی چیز معلوم ہوتی ہے کیوں کہ یہ کہیں بھی بوجھل یا ثقیل ہوئے بغیر سادگی اور روانی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کرتی چلی جاتی ہے اور شاید اچھے اور موثر فکشن کی زبان ایسی ہی ہوتی ہے۔ عاصم بٹ نے اپنے ناول میں اردو کے ساتھ جس طرح لاہور ی پنجابی کے مختلف لہجوں اور لفظوں کو برتا اور کھپایا ہے ، وہ صرف ان ہی کا خاصہ ہے۔ ان کے ناول کی نثر کئی مقامات پر بلندی و ترفع کے ایسے مقام تک پہنچتی ہے،جہاں وہ گہرائی کے ساتھ ساتھ متنوع معنی کی حامل نثر میں ڈھلتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ناول میں ایسے مقامات چند ایک نہیں بلکہ بہت سے ہیں ۔ اس لیے ناول کی نثرکا مجموعی تاثر اکہرا یا یک رخی نہیں بلکہ کئی سطحوں کا حامل محسوس ہوتا ہے۔

یوں تو ہر انسان اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا بھید ساتھ لیے پھرتا ہے، جو اس کے چہرے مہرے، اس کے حلیے اور اس کی حرکات و سکنات سے آشکار نہیں ہوتا۔ وہ بھید اس کے دل یا اس کی روح میں بند ہوتا ہے۔ اسی لیے بظاہر عام سے خدوخال کے حامل لیکن در حقیقت بھید بھرے انسان سے عاصم بٹ کو گہری دلچسپی ہے۔ بھید بھرے انسان سے ان کی اسی گہری دلچسپی نے اس ناول میں ان سے مجید للاری، مشتاق چھرا، مٹھو ایلین، ریاض مودا، اور کہانی کے اصل ہیرو جیسے دل چسپ کردار تخلیق کروائے، جنہیں اردو ادب میں تادیر یاد رکھا جانا چاہیے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).