پی ٹی ایم اور فوج: لڑائی کے فوائد


پی ٹی ایم اور فوج کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں ظاہر ہے قصور وار پی ٹی ایم نے ہی ٹھہرنا ہے کہ کمزور ہے اور منصب، طاقت والوں سے مقابلہ ہے۔

جھگڑا ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہمیشہ سے ایک ہی رائے چلی آتی رہی ہے کہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اگر جھگڑا ناگزیر ہو توپھر جلد از جلد ہو جانا چاہیے۔ پی ٹی ایم اور فوج کا جھگڑا اب ناگزیر ہو چکاہے اس لیے جتنی جلدی اور شدت سے یہ جھگڑا ہو، نقصان کم ہوگا اور فائدے زیادہ ہوں گے۔

مثلاً اس جھگڑے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ابھی پی ٹی ایم اتنی مضبوط نہیں، وسائل کم ہیں۔ ایسے میں فوج کو پی ٹی ایم کو شکست دے کر اپنا مورال کو بلند رکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کو طویل پریس کانفرنس اور اس کانفرنس میں اپنا بیانیہ پیش کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اس جھگڑے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پاک فوج کے جوانوں کو اپنی پیشہ وارانہ مہارتوں کی ریہرسل کاموقع مل جاتا ہے۔ داؤ پیچ یاد رہتے ہیں گاہے بگاہے انہیں آزماتے رہنے سے مزید نکھار پیدا ہوتا ہے۔

اسی طرح عرصہ سے غیرمستعمل ہتھیار جنہیں زنگ لگنے کا خطرہ ہوسکتا تھا وہ خطرہ ٹل گیا۔ خطرہ ٹالنے کے لئے دس بیس جانیں استعمال میں آ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نیوز بلٹن میں نیوز کاسٹرچیختی چنگاڑتی آواز سے جب یہ اعلان کرتا ہے کہ دہشت گردوں پر قابو پالیا گیا ہے۔ خون کی آخری قطرے تک پاکستان کا تحفظ کریں گے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ ایسے اعلانات سن کردو وقت کی روٹی، علاج اور سر چھپانے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے والی فیملی ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھتی ہیں کہ اے مالک! کھانے کو کچھ نہیں، علاج کے لئے وسائل نہیں، عزت و آبرو کی کوئی ضمانت نہیں، سر چھپانے کے لئے ٹھکانہ نہیں پھر بھی تیرا کرم اور شکر ہے کہ ایک ایسی فوج عطا کر رکھی ہے جن کی بدولت آج پیارا ملک محفوظ ہے۔ یہ غریب اس خوشی میں اپنی بھوک، پیاس، بیماری اور نا جانے کون کون سے دکھ بھول جاتا ہے۔ سکون بھری رات گذارتا ہے اورصبح ہوتے ہی پھر وہی مسائل، پہاڑ سے مسائل کا سامنا کرتا ہے۔ تاہم شکر گذاری کے چند لمحات میسر آنا بھی کسی نعمت اورفائدے سے خالی نہیں۔ غریب کو یہ فائدہ تب ہی ملتا ہے جب اس کی فوج کا دشمن سے مقابلہ ہو۔ سو پی ٹی ایم اور فوج کے اس مقابلے میں غریب کو یہ فائدہ ضرور حاصل ہوگا۔

یہ تو اجتماعی فائدے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی لوگوں کو فائدے مل سکتے ہیں۔ مثلاً اپنے چیئرمین نیب کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہو جائے گی، سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس اہم ایشو پر بحث ہوگی چیئرمین صاحب کو لوگ کچھ عرصہ کے لئے بھول جائیں گے۔ البتہ چئرمین صاحب کی محبت اور پی ٹی ایم کی جنگ بارے زباں زد مقولہ ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے“ پھر سے عام ہوجائے گا اور ان دنوں محبت کا نام لیا جائے تو چیئرمین نیب کا چہرہ غیر اختیاری سامنے آجاتا ہے۔ بہر حال محبت میں تو سب جائز قرار دیا جائے لیکن جنگ میں نہیں کہ اپنے شہریوں پر یوں گولیاں برسانا اچھا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).