پی ٹی ایم کو تصادم کی طرف دھکیلنے سے گریز کیا جائے


خڑ کمر سانحہ کے تین روز بعد خیبر پختون خوا کی حکومت کو اتوار کے روز ہونے والے اس سانحہ پر بات کرنے اور قبائلی علاقوں میں امن و امان کی بحالی کے خلاف کام کرنے والے عناصر کو انتباہ جاری کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ اس دوران وزیر اعظم سمیت مرکزی اور صوبائی حکومت کے تمام نمائندے اور حکمران تحریک انصاف کے ترجمان منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے ہیں۔

اس دوران اس سانحہ کے حوالے سے ملک بھر میں بے چینی اور تشویش کی فضا گہری ہوئی ہے۔ کسی جمہوری انتظام میں عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم کی اطلاع سامنے آنے کے بعد سول حکومتوں کی خاموشی اور معاملہ کی تفصیل فراہم کرنے یا اس پر بات کرنے سے گریز کی صورت حال میں دو ہی نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں: الف) حکومت کچھ چھپانے کی کوشش کررہی ہے اور حقائق عوام سے پوشیدہ رکھے جا رہے ہیں۔ ب) حکومت معاملہ کی سنگینی کو سمجھنے اور اس پر عوام کی بے چینی دور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ وہ ایسے تصادم کی ہلاکت خیزی اور قومی سلامتی پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کی سنگینی کو تسلیم کرنے سے گریز کررہی ہے۔

یہ دونوں صورتیں کسی بھی جمہوری انتظام میں قبول نہیں کی جا سکتیں۔ عام طور سے آمرانہ حکومتیں شہریوں کو جبر و ستم کا نشانہ بنانے کے بعد اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے خبروں کی ترسیل میں رکاوٹ اور اظہار رائے کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ حکمرانوں کے بارے میں یہ تاثر قائم رہے کہ وہ آہنی ہاتھوں سے معاملات کو نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جمہوری حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کوئی حکومت اپنی سیکورٹی فورسز کو عوام سے متصادم ہونے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اور نہ ہی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کر کے عوام کی پریشانی اور احتجاج کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت اس فرق کو سمجھنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔ آج خیبر پختون خوا حکومت کے وزیر اطلاعات نے پشاور میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں کسی منتخب حکومت کے نمائندے کی بجائے ایک آمرانہ انتظام کے ترجمان کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے خڑ کمر میں رونما ہونے والے واقعہ کی کوئی واضح تصویر سامنے لانے اور مزید معلومات فراہم کرنے کی بجائے یہ انتباہ دیا ہے کہ ’ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور دہشت گردی کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کامیابیوں کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘۔

خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے اپنی پریس کانفرنس میں اتوار کو ہونے والے تصادم کے بارے میں ایسی کوئی نئی بات نہیں بتائی جو تین روز قبل آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نہ کہی گئی ہو۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان میں تصویر کا ایک رخ پیش کیا گیا تھا جبکہ اس سانحہ کے بارے میں مقامی لوگوں اور پشتون تحفظ موومنٹ کا علیحدہ مؤقف ہے لیکن اسے سامنے آنے سے روکنے کی حتی الامکان کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ خیبر پختون خوا حکومت کے زیر انتظام علاقے میں پیش آیا تھا لیکن ریاستی بیان میں قومی اسمبلی کے دو ارکان پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ایک رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ صوبائی حکومت کو اپنے ہی زیر انتظام علاقے میں رونما ہونے والے واقعہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے یا اس کی ذمہ داری قبول کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ تین روز بعد صوبائی وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس میں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی پریس ریلیز میں کہی گئی باتوں کو دہرا کر اپنے انتظامی اور جمہوری فرض سے سرخرو ہونے کی ناکام کوشش کی ہے۔

شوکت یوسفزئی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈروں کے بارے میں نہایت خطرناک معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس بات کے شواہد سامنے آگئے ہیں کہ ان لوگوں کو کہاں سے روپیہ مل رہا ہے اور ان کا ایجنڈا کیا ہے‘۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے اعتراف کیا کہ پولیس آپریشن کے دوران بنوں میں 22 افراد گرفتار کئے گئے تھے جن میں ایک پشتو ٹی وی کے رپورٹر گوہر وزیر بھی شامل تھے۔ تاہم یہ جاننے پر کہ وہ رپورٹر ہیں، انہیں رہا کر دیا گیا ہے‘۔

صوبائی حکومت کے نمائندے کی یہ باتیں جمہوری روایت اور آزادنہ اظہار رائے کے بنیادی اصولوں کے برعکس ہیں۔ فوجی پریس ریلیز کی باتوں کو مزید شدت سے دہرا کر، اس دوران ملک کی سیاسی اپوزیشن، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عام شہریوں کی طرف سے سامنے آنے والی تشویش کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زردری کی طرف سے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر سوال کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ’ اس کا فیصلہ تو اسپیکر ہی کریں گے لیکن یہ لوگ پر امن نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹنے کی ضرورت ہے‘۔

خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات نے قومی اسمبلی کے دو اراکین کو یک طرفہ طور سے ’امن دشمن‘ قرار دے کر اپنے منصب اور جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس طرح حکومت نے اپنے اس ارادے کو ظاہر کیا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے قائم کئے گئے اس تاثر کو قوی کرنے میں پوری طرح ساتھ دے گی کہ پشتون تحفظ موومنٹ قبائلی علاقوں میں امن و امان تباہ کرنا چاہتی ہے۔ ملک کے وزیر اعظم اور آرمی چیف ریکارڈ پر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ اس تنظیم کے تمام مطالبات جائز اور درست ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے ہتھکنڈوں کو امن وامان قائم کرنے کے اقدامات قرار دے کر دراصل جمہوریت کی اس بنیاد کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس ملک کو متحد رکھنے اور عوام میں امور حکومت میں شراکت داری کا احساس پیدا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اگر پی ٹی ایم کے مطالبات درست ہیں تو ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی بجائے ریاست کی تمام طاقت ان لوگوں کی آواز دبانے کے لئے کیوں صرف کی جارہی ہے جو ان مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

پاکستان میں پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں یک طرفہ رائے کو عام کرنے کے لئے شدت سے کام کیا جارہا ہے۔ اخبارات اور میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر متحرک درجنوں گروپ پی ٹی ایم اور اس کے مطالبوں کی حمایت کرنے والوں کو غدار اور پاک فوج کو ملک و قوم کا محسن قرار دینے کے لئے متحرک ہیں۔ پاک فوج کو انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک چھوٹے سے گروہ کے خلاف فریق کے طور پر پیش کرنے والے اس ملک کی کوئی خدمت نہیں کرتے بلکہ وہ رائے کے آزادانہ اظہار اور مختلف امور پر صحت مند مکالمہ کا راستہ مسدود کر رہے ہیں۔

متعدد لیڈر اس طرف اشارہ کرچکے ہیں اور پاکستان کی مختصر تاریخ کے المناک سانحات بھی اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ جبر کی فضا پیدا کرکے اختلافی رائے کا گلا گھونٹنے سے نہ مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی ریاست مضبوط ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’ون یونٹ کو قبول کرکے بنگلہ دیش بنانے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ اب آوازوں کو دبا کر اور معاشی، جمہوری و انسانی حقوق کو خطرے میں ڈال کر جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں، لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اس سے نہ جانے کیا بحران جنم لیں گے۔‘

ملک میں یک طرفہ بیانیہ کو عام کرنے والے عناصر اور فوج کو ہیرو بنانے کے شوقین مبصر، بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان میں ضرور غداری اور ملک دشمنی کا عنصر تلاش کریں گے۔ لیکن یہ ایک ایسے نوجوان لیڈر کی باتیں ہیں جو عہد نو میں جمہوریت اور آزادی رائے کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس طریقہ کو ترک کرنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ اس وقت بلاول جیسے لیڈر کی بصیرت کو قبول کرتے ہوئے ان حالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جن میں ملک کے مختلف خطوں کے لوگ بددلی اور بے چینی کا شکار ہوتے ہیں۔ پی ٹی ایم ایسے متعدد گروہوں میں سے نوجوانوں کی ایک تحریک کا نام ہے۔

اہل پاکستان کو اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ پشتون نوجوانوں کا یہ گروہ ہتھیار اٹھانے کی بات کرنے کی بجائے قانون و آئین پر عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور تصادم کی بجائے پر امن دھرنے دے کر اپنے مطالبے سامنے لاتا ہے۔ احتجاج کے ان پر امن طریقوں کا احترام کرنے اور ان نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے کام کرنا ہی ملک و قوم کو متحد و منظم کر سکتا ہے۔

جو لوگ پی ٹی ایم کے پرامن ایجنڈے سے خائف ہیں اور اس تحریک کو تشدد اور تصادم کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، وہ بلاول کی بات کو نوٹ کر لیں کہ اس کھینچاتانی میں ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali