بھارت میں ”ہند توا“ کی جیت: سیکولر اور مسلم قیادت کی خطائیں


2019 ء کے لوک سبھا الیکشن میں ہندوستان کی دائیں بازو کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا الیکشن بڑے فرق سے جیت لیا ہے۔ اس سے کچھ دن پہلے ایسی خبریں گشت کرنے لگی تھیں کہ شاید اس بار بی جے پی الیکش ہار جائے گی یا اس کو بہت کم سیٹیں ملیں گی اور جس طرح کے عوامی غصہ کا سامنا اندرا گاندھی کو امر جنسی کے بعد 1977 ء کے الیکشن میں کرنا پڑاویسا ہی اس بار نریندر مودی کو کرنا پڑے گا۔ لیکن 23 مئی کے الیکش نتائج نے سب کو حیران کر دیاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے نہ صرف الیکشن جیتا بلکہ ہندوستان کی ایک بڑی پارٹی کانگریس کو 2014 کے بعد ایک بار پھر چاروں خانے چت کیا۔

حالات و واقعات اور نتائج کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر کانگریس یا اتحادی پارٹیوں سے کہاں غلطی ہوئی کہ وہ ”ہندتو لہر“ کو روک نہیں سکے۔ یہاں راقم الحروف ”مودی لہر۔ “ کے بجائے ”ہندتو لہر“ اس لیے استعمال کررہا ہے کیوں پچھلے 5 سال میں بھارت میں مودی لہر، ہندتو لہر میں تبدیل ہوگئی اور یہ ہندتو لہر ہے جس نے آج بی جے پی کو جیت دلوائی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ ہندتو لہر بابری مسجد کے شہید ہونے کے ساتھ ہی شروع ہوئی اور حالیہ برسوں میں اس ہندتو لہر میں اضافہ اتر پردیش کے ضلع دادری میں اخلاق کے قتل کے ساتھ شروع ہوا۔ اور اس لہر نے آگے جا کر افراضل، پہلو خان، جنید خان جیسے مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح پورے ہندوستان کو اسی رنگ میں رنگ لیا، جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔

بھارت میں اس ’ہندتو لہر‘ کو بڑھنے سے روکنے میں یہاں کی سیکولر سیاسی جماعتیں پانچ سال تک پوری طرح ناکام ہوئیں اور سب نے اپنے اپنے راگ الاپنے شروع کیے، جن میں ان خود کی مجبوری یا لالچ چھپی ہوئی تھی۔ اس نفرت کی سیاست کو روکنے میں یہاں کے بڑے سیاست دانوں نے پہلے ہی گھُٹنے ٹیک دیے۔ سب سے پہلے 2015 ء میں دادری میں اخلاق کے قتل پر ہندوستان میں کچھ ہنگامہ نہ ہوا اور نہ کوئی احتجاج، صرف ٹویٹر، فیس بک اور دوسرے عوامی رابطے کی سائٹس پر اس بہیمانہ قتل پر نکتہ چینی ہوئی۔

اس کے بعد اُسی سال راجستھان میں ٹرک میں گائے کے گوشت کو لے جانے کے الزام میں پہلو خان کو قتل کیا گیا، لیکن ہندوستان میں اس پر بھی ہنگامہ نہ ہوا، یہاں تک کہ مسلمانوں کے نام نہاد نیتا وں نے صرف بیان بازی پر اکتفا کیا اور محل خانوں میں بریانی کا مزہ لیتے رہے۔ اس کے بعد آسام میں دو مسلمانوں کو گائے کی چوری کے بے بیناد الزام میں قتل کیا گیا لیکن پھر وہی سوشل میڈیا ئی اور تعزیتی اور نکتہ چینی بیانات، جن کا اثر صرف کچھ دنوں تک رہا اور یوں ہندوستان میں دھیرے دھیرے ہندتو لہر کو ایک طرح کا اخلاقی جواز اور قانونی حیثیت مل گئی کیوں کہ ان جرائم میں نہ کسی کا سوشل بائکاٹ کیا گیا اور نہ ہی قانون نے ان کو کوئی سزا دی۔ سب مجرم آج آزاد گھوم رہے ہیں اور ہندتو کی جیت کی جشن منا رہے ہیں۔

دادری کے بعد ہندوستان میں ہندوتو کی نفرت بھری لہر میں اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے قتل کا جشن منایا گیا، یہاں تک کہ مسلمانوں کا کھلے عام مذاق اڑایا گیا اور اُنہیں پاکستان جانے کے لیے کہا گیا۔ نفرت کی بنیاد پر کئی ’وٹس اپ گروپ‘ وجود میں آئے جن میں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلایا گیا اورتقریباً سو کے قریب افراد اس نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نہ صرف اتنا ہی بلکہ اس سے مسلمانوں کے روزگار پر بھی اثر پڑا۔ لیکن کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے ہندوستان کے مسلمانوں کی بات نہیں کی۔ دہلی کے جنتر منتر پر کوئی بڑادھرنا نہیں ہوا، کوئی جلوس نہیں ہوا، ہوا تو محض مذمتی بیانات اور تقریروں میں دھمکیاں، جن کا اثر دیرپا نہیں، یا جو شاید بی جے پی کی میڈیا طاقت کے سامنے ماند پڑگئیں۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کے ”لیڈروں۔ “ نے بھی بھلا دیا۔ جس کا ماننا ہے یا جن سے منوایا گیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان پر جو بھی ظلم ہورہا ہے وہ یا تو پاکستان بننے کی وجہ سے ہو رہا ہے یا پھر کشمیر میں رواں تحریک آزادی کی وجہ سے۔ اس پر جتنا افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ اور اس پر تو اور زیادہ افسوس کیا جانا چاہیے کہ ہندوستان کا نوجوان مسلمان، جو یونیورسٹی میں پڑھتا ہے انہی باتوں کی رٹ لگائے بیٹھا جو اس کو کانگریس نے بتائی ہے کہ کشمیری اور پاکستانی آپ کا دشمن ہے، جس کی نہ کوئی منطقی حیثیت ہے اور نہ کوئی سیاسی۔

ووٹ بینک سیاست نے ہندوستان کے مسلمان کی آزادانہ سوچ کو مفلوج کیا ہے اور اُسے اپنے بارے میں صحیح انداز میں سوچنے اور اپنے حقوق کے لیے لڑنے سے باز رکھا ہے۔ پہلے ”شاہی امام“ اپنی کرسی کے لیے اسے بے وقوف بناتا رہا اور اب میدان میں ان کے نیا ”مسیحا“ اویسی اُتر آیا ہے، جو اپنی دیش بھکتی دکھانے کے لیے کشمیر کی سیاست اور یہاں ہو رہے ظلم سے آنکھ موند کر آئے دن کوئی نہ کوئی بیان دیتے رہتے ہیں۔ بھلا ان کو کون سمجھائے کہ اپنے حق کے لیے لڑنے کے کیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے انہیں خود اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونا ہے، جس طرح ہندوستان کا دلت طبقہ کھڑا ہوا۔ محض جناح، پاکستان اور کشمیر کا راگ الاپنے سے ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل حل ہونے والے نہیں اور اگر ان کو کوئی ایسا کہہ رہا ہے تو وہ ان کو سیدھے طور پربے وقوف بنارہا ہے۔

ہندوستان یا ہندوستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں کے عوام نے نوکریاں پانے اور باقی چیزوں کی لالچ میں تو مختلف سیاسی پارٹیوں کو چن کر کچھ ترقی کرلی لیکن بہت سی سیاسی جماعتوں کے جرائم کو یکسر بھلادیا۔ چاہے و ہ 1984 ء کے سکھ مخالف فسادات ہو یا، 1992 ء کا بابری مسجد کو شہید کرنا یا پھر 2001 ء گجرات فسادات، ہندوستانی عوام نے ہمیشہ یہی دکھایا کہ اس کو یہاں کے اقلیتی فرقے کی کوئی پروا نہیں، اور انہوں نے ہر وقت انہی کو اپنا نمائندہ چُنا جو اِن جرائم اور فسادات میں ملوث تھے۔

کسی بھی بڑے سیاست دان سے، جو اقلیتوں کے خلاف ان جرائم میں ملوث رہا ہے، باز پرس نہیں کی گئی۔ بلکہ ہندوتو پارٹیوں کو اپنے پروگرام چلانے کی کھلی چھوٹ دی گئی، راجیو گاندھی نے تو بابری مسجد کا تالا توڑنے کا حکم دیا اور اس طرح انتہا پسند ہندؤں کو مسجد میں داخل ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد ہندو انتہاپسندوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور دھیرے دھیرے ہندوستان میں مسلمانوں کی زمین تنگ ہوتی گئی۔

پھر ہندوستان کے آئین کو جلانے کی بات ہوئی اور گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کو مجاہد قرار دیا گیا۔ اس پر بھی نہ کوئی شور ہوا اور نہ کوئی ہنگامہ۔ بس وہی ٹوٹر اور فیس بک پر مذمتی بیان جاری ہوئے اور ان بیانات کا نہ کوئی مصرف تھا، نہ کوئی معنی۔ اس طرح ہندوستانی عوام اور یہاں کی دیگر ترقی پسند کہلانی والی جماعتوں کا مظلوموں کوانصاف دلانے میں رول صفر کے برابر ہے۔ یہاں بائیں بازوں کی پارٹیوں اپنی بنیادی آئڈیلوجی کو پس پشت ڈالا اور ہمیشہ کرسی کا پیچھا کیا اور منافقت کا لبادہ اوڑھے رکھا۔ ان پارٹیوں نے ہمیشہ مظلوموں اور پچھڑے طبقات کو اپنے ووٹ اور کرسی کے لیے استعمال کیا۔ زمین پر ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہیں میڈیا پر بھی ان پارٹیوں کی موجودگی بہت کم ہے، جبکہ بی جے پی نے اپنے ایجنڈے اور پروپگنڈے کو پھیلانے میں میڈیا، خاص کر برقی میڈیا کا خوب استعمال کیا۔

اب جبکہ ہندوستان میں بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے، وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کی تمام سیکولر اور ترقی پسند پارٹیاں ہوش کے ناخن لیں اور ہندوستان کو ہٹلر کا جرمنی بننے سے روک لیں، ورنہ ہندوستان میں کسی کے لیے اچھے دن نہیں آئیں گے، بلکہ نفرت اور دہشت کی سونامی سب کو اپنے ساتھ ڈبو لے جائی گی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو ششی تھرور اور اویسی کے بہلاوے میں نہ آتے ہوئے زمینی سطح پر کام کرنا اور اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔

اور یہ صرف ایک دن کا کام نہیں کہ الیکشن آیا اور آپ نے ووٹ کے لیے اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا اور پورے پانچ سال اس ظلم کو سہتے رہے اور بریانی اور افطار پارٹیوں میں مست رہے۔ اس نفرت و ظلم کو اگر روکنا ہے تو یہ کام آج سے ہی شروع ہونا چاہیے تاکہ اخلاق، افراضل، پہلو، جنید خان جیسے واقعات کو پھر سے پیش آنے سے روکا جاسکے، اور ہندوستان کا مسلمان کسی خوف و دہشت میں اپنی زندگی گزارے اور اسے آئے دن اپنی دیش بھکتی کا ثبوت نہ پیش کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).