ریاست مخلص ہے تو اسے حقیقی ماں جیسا جذبہ دکھانا ہو گا


خوش کن منشور، خوب نعرے، دو نہیں ایک پاکستان، تقریروں سے سماں باندھ دیا، خوش کرنے کے لیے عوام زندہ باد ایک نہیں، کئی بار کہا، سیاسی مخالفین کے لیے کارکنوں کے دماغوں کو زہر آلود کیا، چمکتے سورج میں خواب دکھائے، احتساب سب کے لیے، لیکن یہ طے کر رکھا تھا کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنا ہے کوئی بھی حربہ اختیار کیا جائے۔

بات یہی نہیں رکی۔ اقتدار میں آنے کے بعد ریاست مدینہ بنانے کا اعادہ بار بار کرنا، نظام بدلنے کا کہنا، قانون سب کے لیے ایک، کوئی قانون سے بالاتر نہیں یہ وہ باتیں ہیں جو وزیراعظم پاکستان عمران خان اپنی ہر تقریر میں کرتے ہیں۔ خوش کن یہ الفاظ بچے سے لے کر نوجوان اور جوان سے لے کر بزرگ شہری تک ہر ایک کو ازبر ہو گئے ہیں۔

پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار ذرا بتانا پسند کریں گے کہ اللہ کے نبی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قرآنی قانون سے مستثنی اور ماوراء نہیں تو آپ لوگ کیوں؟

حکمران قانون شکنی کریں تو کہا جاتا ہے کہ آئین اور قانون انھیں استثنیٰ دیتا ہے۔ جناب وزیراعظم صاحب دھرنوں کے دوران پی ٹی وی پارلیمنٹ حملہ کیس اور ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر تشدد سمیت چار مقدمات میں انسداد دہشتگردی عدالت میں وزیراعظم، صدر ریاست عارف علوی، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر پر مقدمات درج ہیں۔ عدالتوں نے آپ کو اشتہاری بھی قرار دیا تھا۔ پھر آپ وزیر اعظم بن گئے۔ وہی عدالتیں جنہوں نے آپ کو اشتہاری قرار دیا تھا ان سے ہی آپ کی ضمانتیں منظور ہوتی ہیں اور ساتھ کیس داخل دفتر کیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ آئین اور قانون انھیں استثنیٰ دیتا ہے۔

آئین اور قانون کا ڈنڈا غریب پر چلتا ہے یا اُن لوگوں پر جو اپنے حقوق مانگنے کے لیے پرامن احتجاج کرتے ہیں، طاقتور پر کیوں نہیں؟

احتساب کی بات کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ احتساب سب کے لیے، احتساب کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے تو پھر احتساب کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ اپ کے سیاسی مخالفین نواز شریف اور زرداری ہی کیوں پس رہے ہیں۔ آپ کے ارد گرد بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دامن کرپشن سے آلودہ ہیں اور ان پر بوجوہ ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا۔

نیت جانچنے کی ضرورت نہیں لیکن آنکھوں دیکھی بات سے انکار کیسے کیا جائے کہ قومی سلامتی کے فیصلے آپ نہیں، کوئی اور کرتا ہے۔ معاشی پالیساں آئی ایم ایف کے مشورے سے بنائی جاتی ہیں۔ ان پالیسوں نے قوم کو غربت اور افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا۔

قومی سلامتی کے حوالے سے اسمبلی فلور پر حکومت کے اتحادی سردار اختر مینگل نے خبردار کیا کہ یہ جو غدار غدار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اسے بند کرنا چاہیے، پارلیمانی کمیشن بنایا جائے ضروری نہیں اس میں سارے لوگ پارلیمنٹ سے ہی لیے جائیں ایوان سے باہر دانش مندوں کو بھی شامل کیا جائے جو وزیرستان میں ہونے والے واقعہ پر حقائق معلوم کرے۔

میرے نزدیک طاقت کے مراکز اتنا کچھ ہونے کے باوجود اس دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں کہ خواہ ملکی وحدت پارہ پارہ ہو جائے، ہم دنیا بھر میں رسوا ہو جائیں، یہ سب کچھ انھیں گوارا ہے مگر پیشوائی کی مسند سے اترنا اور رہبری کے خول سے نکلنا ان کے لیے سخت دشوار ہے۔

کہا جاتا ہے ریاست ماں جیسی ہوتی ہے ماں تو دکھ سہہ کر بچے کے لیے آسانیوں کا سماں پیدا کرتی ہے، اپنا سنگھار قربان کر کے بچوں کا مستقبل محفوظ بناتی ہے اگر ماں سوتیلی ہو تو وہ اولاد کے مصائب پر ہمیشہ اپنے آرام کو ترجیح دے گی، دکھاوے کی لوری بھی دے گی، منہ میں لولی پاپ بھی دے گی دل رکھنے کو بانہوں میں بھی لے گی مگر حقیقی پیار کبھی نہیں دے گی۔ یہی کچھ ریاست آج کل ملک و قوم سے کر رہی ہے۔
ریاست مخلص ہے تو اسے حقیقی ماں جیسا جذبہ دکھانا ہو گا۔ ناخلف بیٹوں کو بھی پیار سے راہ راست پر لانا ہو گا۔ مگر اس کے لیے دل بڑا اور حوصلہ کڑا درکار ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui