جیالوں پر تشدد کیا رنگ لائے گا؟


بلاول بھٹو کی نیب میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے جیالوں اور کارکنوں پر تشدد اور پکڑ دھکڑ سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ تبدیلی سرکار ذرا بھی پریشر برداشت نہیں کر سکتی۔ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین سے جس طرح نبٹ رہے ہیں اس پر یہ سوال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ کیا یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے کم و بیش چار مہینے تک اسلام آباد میں دھرنا دیے رکھا تھا۔ شہر بند ہونے کی وجہ سے شہریوں نے کافی تکلیف بھی اٹھائی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے بالآخر جب دھرنے کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو اس پر عمران خان کی طرف سے سخت احتجاج اور مذمت کیے گئے تھے۔

بعد ازاں یہ بھی فرمایا تھا کہ ہماری حکومت کے خلاف اگر کوئی دھرنا دینا چاہے تو ہم نہ صرف کنٹینر دیں گے بلکہ کھانا بھی پہنچائیں گے مگر جیالوں پر واٹر کینن کا استعمال، لاٹھی چارج، مار دھاڑ اور گرفتاریاں اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ محض باتیں ہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت مخالفت کرنے والوں کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اس سے پہلے بلاول بھٹو کی افطار پارٹی پر بھی حکومتی بیانات اور افراتفری دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا ہو۔

حکومتی ارکان طرح طرح کے بیانات دے رہے تھے۔ خود عمران خان بھی پیچھے نہ رہے اور وہ گھسے پٹے بیان دہراتے رہے جو اب پاکستانیوں کو ازبر ہو چکے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اپوزیشن کمزور ہے۔ حکومت کی بیک مضبوط ہے پھر گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر بلاول بھٹو، مریم نواز اور دیگر اپوزیشن لیڈر مل بیٹھ کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کر بھی لیتے ہیں تو حکومت کو اس سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔

عمران خان جب نواز حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے تھے تو خود انہی کا دعویٰ تھا کہ لاکھوں لوگ ان کے ساتھ ہیں، امپائر کے اشارے کے منتظر بھی تھے اور اب انہی کی معاونِ خاص ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بقول پیپلز پارٹی ایک صوبے کے چند اضلاع کی پارٹی رہ گئی ہے، پھر اتنی چھوٹی پارٹی سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان کے جیالوں کو احتجاج کرنے دیتے وہ خود ہی تھک ہار کر چلے جاتے۔ مگر آپ تو خود انہیں اہمیت دینے پر تلے ہیں۔ اب مریم نواز نے بھی جیالوں پر تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی حلقوں سے حکومتی رویے کی مذمت سامنے آئی ہے۔

بلاول بھٹو نے بھی کہا ہے کہ عمران خان ریاست کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ کیا مدینہ کی ریاست میں روزہ دار خواتین کو گرفتار کیا جاتا ہے؟ عمران خان سے حکومت چل نہیں رہی، ان میں صلاحیت ہی نہیں۔

عمران حکومت اگرچہ ہمیشہ خود کو دوسروں سے مختلف کہتی آئی ہے لیکن اپنے ہر عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ان میں اور سابقہ حکومتوں میں کوئی فرق نہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین پر تشدد تو مشرف حکومت میں بھی ہوتا تھا۔ نواز اور زرداری حکومت نے قرضے لئے تو موجودہ حکومت نے کون سا کشکول توڑا ہے؟

ہاں ایک فرق ضرور ہے کہ نواز اور زرداری حکومت میں عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دیا جاتا تھا جبکہ موجودہ حکومت عوام کا تیل نکالنا چاہتی ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتیں رک ہی نہیں رہیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور اس حکومت کی طرف سے تنخواہیں بڑھانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ تنخواہوں میں کمی کا اعلان کر دیا جائے۔

حکومت نہ ڈالر کو قابو کر سکی ہے نہ لوٹی ہوئی دولت بیرونِ ملک سے واپس لاسکی، نہ مطلوبہ ٹیکس وصول کر سکی نہ قرضے واپس کر سکی۔ وہ تبدیلی ہے کہاں جس کی بنیاد پر عوام دیگر پارٹیوں سے کنارہ کر لیں۔

اگر کسی پارٹی کے کارکن اپنی قیادت سے اظہارِ یکجہتی کے آتے ہیں، نعرہ بازی کرتے ہیں تو اس پر پرتشدد کارروائی کا کیا جواز بنتا ہے؟

تشدد کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی کو ختم نہیں کر سکتا بلکہ اس میں نئی جان ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اپوزیشن پارٹیاں جان بوجھ کر انہیں وقت دے رہی تھیں تاکہ وہ سیاسی غلطیاں کریں اور پھر وہ سامنے آئیں۔ شاید اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں سیاسی جھیل کے ٹھہرے ہوئے پانی میں تلاطم پیدا کریں۔ ایسے میں جیالوں پر تشدد کیا رنگ لائے گا ابھی حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کمزور ہرگز نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کی افطار پارٹی کے تناظر میں دیکھا جائے تو مستقبل میں بلاول بھٹو اور مریم نواز سیاسی میدان میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).