یوٹیوبرز کی پاکستان کے نظام تعلیم پر ایف آئی آر


معروف یوٹیوبر اپنے شو میں نویں جماعت کی کمپیوٹر کی کتاب سامنے لائے۔ جس کا نصاب آئی ٹی کی تاریخ کے سوا کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ تاریخ سے مراد فلاپی ڈسک کا سائز، اور استعمال، ماؤس میں استعمال ہونے والی بال، کی بورڈ سے کیا کام لیا جاتا ہے، سی ڈی روم، سی پی یو کیا ہوتا ہے؟ مانیٹر کسے کہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

ان میں سے اکثر ایجادات اب ماضی کا حصہ ہوگئیں۔ مگر ہماری نویں جماعت کے طالب علم یہ سب پڑھنے اور رٹنے پر مجبور ہیں۔ واضح رہے نویں جماعت کا پرچہ بورڈ کا پرچہ ہوتا ہے اور اس جماعت تک پہنچتے اکثر طالب علم داڑھی مونچھیں اگا چکے پوتے ہیں۔ یعنی عاقل اور بالغ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال انٹر بورڈ اور پھر یونیورسٹی کے نصاب کی بھی ہے۔ ہم تعلیمی نصاب میں جو کچھ پڑھا رہے ہیں وہ دنیا سے بہت پیچھے ہے۔

اس ہی طرح ایک اور یوٹیوبر نے وفاقی بورڈ کی کتاب دکھائی جس میں مثال کے طور پر ونڈوز نائنٹی ایٹ کی تصاویر شامل ہیں۔ جسے ماضی کا حصہ بنے بھی سالوں بیت گئے۔

اب تو دوسری یا تیسری جماعت کے طالب علم بھی موبائل فون اور کمپیوٹر پر اپنی مرضی کا کارٹون خود لگا لیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے گیم خود کھیل لیتے ہیں۔ ایسے میں نویں جماعت کے طالب علم کو ‘‘مانیٹر کیا ہے؟’’ پڑھانا ظلم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے سافٹ وئیر انجنئیرز سافٹ وئیر تک ٹھیک سے انسٹال نہیں کر سکتے۔ پروگرامنگ کی زبانوں پر عبور اور پھر نت نئی ایجادیں تو بہت آگے کی بات ہے۔ اکثر ادارے تو اب ڈگری یافتہ نوجوانوں پر ان لوگوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں جنہوں نے ہنر خود یوٹیوب یا کسی اور ذریعے سے سیکھا ہے۔ گوگل تک نے نوکری دینے کے لیے ڈگری کی شرط کو ختم کر دیا ہے۔

معاملہ محض آئی ٹی کی تعلیم ہی کا خراب نہیں ہے۔ ایم بی اے کیے ہوئے لوگوں کو کاروبار بارے کچھ علم نہیں، بہت سے تو ای میل کرنا بھی نہیں جانتے۔ صحافی حضرات زبان سے نابلد ہیں۔ املا کی سنگین غلطیاں کرتے ہیں۔ نیز ہر سو اندھیرا چھایا ہے، ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ اور انجام گلستاں آپ کے سامنے ہے۔

بچپن سے لے کر بالغ ہونے یعنی یونیورسٹی سے فارغ ہوجانے تک اردو اور انگریزی پڑھائی جاتی ہے۔ یہاں بچپن کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ذہن زیادہ زرخیز ہوتا ہے۔ زبان کو، ہنر کو، عادت کو جذب کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ اگر بچپن سے اردو پڑھنے والوں کا املا درست ہو نہ تلفظ اور زندگی بھر انگریزی زبان میں پرچے دینے والے ایک درخواست تک نہ لکھ سکتے ہوں تو نالائق صرف طالب علموں یا سرکار کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ماں باپ اور اساتذہ سمیت معاشرہ بری طرح ناکام ہو جاتا ہے۔ جو کہ شاید ہو بھی چکا ہے۔

ہمارا پڑوسی بھارت اپنے نظام تعلیم ہی کے باعث آج دنیا بھر پر راج کر رہا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس نے بھارتی افراد کو گوگل، ایڈاپ اور بہت سی بڑی کارپوریشنز کا سی ای او بنا دیا ہے۔
تبدیلی سرکار اور کچھ نہیں کرسکتی تو بوسیدہ نصاب کو ہی تبدیل کردے۔ کہ شاید آنے والی نسلیں ملک کا کچھ بھلا کرلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).