افغان مہاجرین کی واپسی کیوں ضروری؟


\"SULTANملک میں آج کل افغان مہاجرین کی واپسی کا مسلّہ بڑی شدت سے محسوس کیا جارہا ہے اور یہ شدت اس لیے بھی محسوس کی جارہی ہے کہ تیس سال سے زائد مہمان نوازی کے باوجود بھی آج افغانی اگر ایک طرف پاکستانی پرچم جلارہے ہیں تو دوسری طرف ایسی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ واپس جانے والے بعض مہاجرین یہاں سے اپنی \’\’کمائی\’\’ کے لیے بچوں کو بھی اغوا کر کے لے جا رہے ہیں جبکہ کچھ واپس جانے والے افغانی پاکستانیوں کو سیر کرانے کے بہانے سے لے جاکر وہاں سے تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں ان دنوں مہاجرین کی واپسی اور پاکستان میں ان کے قیام کی مدت میں توسیع کے حوالے سے بھی مختلف موقف سامنے آ رہے ہیں پاکستان میں قیام پذیر افغان مہاجرین کی خواہش بھی ہے اور مطالبہ بھی ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس افغانستان نہ بھیجا جائے اور ان کے ساتھ سختی نہ کی جائے کیونکہ افغانستان میں حالات بہتر نہیں اور وہ وہاں زندگی نہیں گزار سکتے تاہم ملک کی ایک بڑی اکثریت اب افغان مہاجرین کی واپسی چاہتی ہے اور ان کے مطالبے میں اس لیے بھی زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے کہ ایک طرف افغان حکومت بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان پر مسلسل الزامات لگا رہی ہے تو دوسری طرف وہ افغان مہاجرین کی مدت قیام میں توسیع کے مطالبے بھی کررہی ہے ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے خلاف اقدامات سے بھی گریز نہیں کررہی جس کی وجہ سے پاکستان میں اب افغانیوں کے خلاف فضا ہموار ہورہی ہے.

اطلاعات کے مطابق اس صوبہ میں اس وقت رجسٹرڈ افغان مہاجرین سے کئی گنا زیادہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیںاس میں ہزاروں خاندان کیمپوں سے نکل کر مختلف شہروں میں پھیل گئے اور وہاں آباد ہو گئے ان میں سے صاحبِ ثروت حضرات نے تو کاروبار بھی شروع کر دئیے اور جائیدادیں بھی خریدلیں اور پھر پاکستان کے شناختی کارڈ بھی حاصل کر لئے، مہاجرین میں سے نچلے طبقے والوں نے مزدوری کا پیشہ اختیار کیا اور انہی میں سے بعض جرائم کی راہ پر چل پڑے، ایسے لوگوں سے مختلف نوعیت کے جرائم منسوب ہیں۔ یہ افغان شہری نہ صرف پشاور، لاہور، اسلام آباد اورکراچی میں آباد ہیں، بلکہ لاہور کی مختلف مارکیٹوں میں اچھے خاصے کاروبار کے مالک بھی ہیں، جبکہ تیسری قسم کا طبقہ مختلف بستیوں میں قیام پذیر ہے۔ اب جوایکشن شروع ہوا تو یہ حضرات زد میں آ رہے ہیں جن کے کاروبار جم چکے وہ جائیدادیں خرید چکے وہ کسی قیمت پر واپس جانا پسند نہیں کرتے، جبکہ ان کی نسبت محنت کش طبقے کے حضرات بھی پس و پیش ہی کررہے ہیں البتہ جرائم سے منسلک افراد روپوشی اختیار کرتے جا رہے ہیں وہ لوگ اب ٹھکانے بھی بدل رہے ہیں۔

16 دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد سے پاکستان میں موجود بیس لاکھ سے زائد رجسٹرڈ اور تقریباَ دس لاکھ کے قریب غیر قانونی افغان مہاجرین جو گزشتہ 35 سال سے پاکستان میں مقیم ہیں کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کیا جا نے لگا صوبائی حکومت بھی وفاق سے یہی مطالبہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی اور کہہ رہی ہے کہ بہت ہو چکا اب افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجا جائے۔ صوبائی حکومت نے وفاق کو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ مہاجرین کی واپسی کا نیا شیڈول بنایا جائے، اس سے قبل کہ ہم ان کی واپسی کے مطالبہ پر بات کریں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد اور یہاں قیام کا ایک جائزہ لیتے ہیں یہ ستر کی دہائی کا آخری سال تھا 1979ء میں جب روس نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کیں تو افغان باشندوں نے پاکستان کا رخ کیا افغانستان میں روس کی آمد کے بعد یکے بعد دیگرے جیسے جیسے حکمران بدلتے رہے اور خونی ڈرمے کھیلے جانے لگے تو افغان باشندوں کے بڑے ریلوں کی پاکستان آمد بھی شروع ہو گئی۔

افغانستان میں داخل ہونے کے بعد کے جی بی اور خاد نے پاکستان اور خصوصاً صوبہ خیبر پختونخوا کو جس طر ح نشانہ بنایا یہ بھی ماضی کی تاریخ کا ایک المناک باب بن چکا۔ ان دونوں ایجنسیوں نے پاکستان اور خصوصاَ اس صوبے میں پبلک مقامات کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا اس دور میں صوبہ خیبر پختونخوا کے باسیوں نے افغانستان کی جنگ میں جو قربانیاں دیں وہ بھی ناقابل فراموش ہیں لیکن ان قربانیوں کے باوجود بھی افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد افغان قیادت نے پاکستان کو اس کا کیا صلہ دیا وہ بھی سب جانتے ہیں دس سال کی طویل اور صبر آزما گوریلا جنگ کے بعد تو روس افغانستان سے چلا گیا مگر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین نے امن و امان کو جواز بنا کر واپس جانے سے انکار کر دیا اپنے پاکستان میں قیام کے دوران جہاں وہ حکومت سے امدادی رقم وصول کرتے رہے وہاں دوسری طرف انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں اپنے پیر پھیلانے بھی شروع کیے پراپرٹی سے تجارت اور لیبر تک ہر شعبے پر افغان مہاجرین چھا گئے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو مشکلات اور پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا ایک دور ایسا بھی آیا کہ مقامی اور افغان باشندوں میں کشیدگی بھی پیدا ہوئی اور لوگ ان کی واپسی کا مطالبہ شدت سے کرنے لگے تھے لیکن حکومت چونکہ عالمی اداروں کے سامنے بے بس تھی اس لئے عوامی مطالبے پر عمل در آمد تو دور کی بات رہی اس پر کوئی پیش رفت بھی نہ ہو سکی

وقت گزرنے کے ساتھ ہی ساتھ اس صوبے میں جرائم کی رفتار بھی تیز ہو گئی (بلکہ ملک بھر میں جرائم کی شرح بڑھ گئی )اور اب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، چوری، ڈکیتی اور قتل روز مرہ کے معمول بن گئے ان جرائم میں گرفتار ہونے والے افراد کی اکثریت افغان مہاجرین کی ہوتی ہے پولیس ریکارڈ اس کا گواہ ہے ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب افغان مہاجرین کے باقاعدہ گروہ بن گئے جو ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث رہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سب افغان باشندے یا افغان مہاجرین جرائم میں ملوث ہیں ان میں اچھے کردار کے حامل لوگ بھی موجود ہیں لیکن جس طرح ہر قوم میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں اور برے لوگ اپنی قوم کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں اسی طرح جرائم میں ملوث یہ لوگ بھی اپنی قوم کی بدنامی کا باعث بنے اور بن رہے ہیں جس کی وجہ سے اب ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کی کوششیں کی گئیں لیکن پھر حکومت عالمی اداروں کے سامنے بے بس ہوگئی اور واپسی کی کوششیں ترک کرکے ان کے قیام میں توسیع کر دی گئی ان کے بعد افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ امن و امان کو جواز بنا کر عالمی اداروں کے دبائو سے مجبور ہو کر سابق حکومت نے بھی 2015ء تک ان کی واپسی ملتوی کر دی اور اب ایک بار پھر انہیں چھ ماہ کی توسیع دے دی گئی ہے اب ایک بارپھر ان کی واپسی کے لئے فضا بن گئی ہے اور صوبائی حکومت بھی افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے

خیبر پختونخوا میں اس وقت تقریباً ہر شعبے پر افغان مہاجرین قابض ہو چکے ہیں جس سے مقامی تاجر برادری کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب جبکہ افغانستان میں کسی حد تک امن و امان قائم ہوچکا ہے انتخابات کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی بھی ہوگئی غیر ملکی سرمایہ کار بھی بڑی تعداد میں افغانستان میں سرمایہ کاری کیلئے آ چکے ہیں امریکی فوج کی بڑی تعداد کی واپسی بھی ہو چکی ہے پاکستان چین اور خطے کے دیگر ممالک بھی افغانستان میں امن کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ایسی صورت میں پاکستان میں ان کے مزید قیام کا کوئی جواز بھی نہیں بنتا پاکستان کی حکومت کی طرف سے افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجنے کے لئے اب سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے ٹھوس حکمت عملی مرتب کر کے مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جائے پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی دگرگوں حالت میں ہے افغان مہاجروں کے مزید بوجھ کی متحمل نہیں ہو سکتی پاکستان افغان مہاجرین کے لئے \’\’ دبئی\’\’ بن چکا ہے یہاں انہیں ہر قسم کی سہولت اور مراعات حاصل ہیں ان کی اکثریت پاکستانی شناختی کارڈ جعسازی سے حاصل کر چکے ہیں کاروبار شروع کرنے کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں لیبر میں بھی یہی افغان مہاجرین پیش پیش ہیں انہی کی وجہ سے مقامی لیبر کو دیہاڑی ملنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے ایسے حالات میں وہ پاکستان سے جانے کیلئے تیار نہیں اور انہوں نے واپس جانے سے پھر انکار کر دیا ہے

عالمی ادارے بھی اپنے مخصوص مفادات کے پیش نظر انہیں مزید پاکستان میں قیام کو طول دیتے رہیں گے وہ پاکستان پر پھر دبائو ڈالنے کی تگ و دو میں ہیں تا کہ حکومت کوپھر مجبور کر کے اپنے ارادے سے پیچھے ہٹایا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ جہاں تک افغانستان میں حالات کی ابتری کی بات ہے تو اسے اب جواز کے طورپر پیش نہیں کیا جاسکتا اول تو افغانستان میں حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں اور اگر اس میں کچھ خرابی ہے تو یہ ان کا اپنا مسلّہ ہے جس طرح 1979ء کے بعد سے افغانستان کی وجہ سے پاکستان میں حالات بہتر نہیں رہے یہاں بم دھماکے ہوتے رہے اس کے بعد خودکش حملوں کا سلسلہ چلتا رہا جس میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے تو کیا پاکستانی بھی کسی ملک میں حالات کی وجہ سے مہاجر بن کر چلے جائیں؟ یہ پاکستان اور پاکستانیوں کا مسلّہ ہے سو وہ اس سے نمٹ رہے ہیں اور جواں مردی سے اس کا سامنا کررہے ہیں۔ افغان باشندے اور ان کی قیادت دونوں اب واپسی روکنے کے لیے جواز تلاش کرنے یا اسے نفرتوں کا جواز بنانے کی بجائے پاکستان کی طرح ہمت کا مظاہرہ کریں اور صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments