دہشت، بھوک اور خواب


\"Rashidفیس بک پہ آج ایک بولتی اور احتجاج کرتی تصویر آنکھوں کے سامنے سے گزری جس میں ایک بچے نے سر پہ لگ بھگ آٹھ اینٹوں کا وزن لاد رکھا تھا ۔ تصویر ہندوستان میں بنی ۔ بنگلہ دیش یا پاکستان میں مگر حقیقت یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ایسی ہی تصویریں ہمارے ہاں بھی بننے کو تیار ہیں۔ یہ بچہ ایک علامت ہے وگرنہ ان گنت تعداد ہے ایسے کمسنوں کی کہ جن پہ ایسے بوجھ لاد دیئے گئے جن میں انکی مر ضی شامل نہیں ہوتی۔ کبھی غریب اور فاقہ کش اپنی اولاد کا پیٹ بھرنے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر اس بازار میں اپنی معصوم اولاد کو لے آتا ہے۔ اسکی مجبوری اس سے یہ کام کرواتی ہے ورنہ لخت جگر کو یوں جسم جھلسانے والی گرمی یا سردیوں کی یخ بستہ ہوا کے سپرد کوں ظالم کر سکتا ہے۔ کون بیچتا ہے اور کوں اپنے تن سے اپنے ہی جسم کے حصے کو جدا کرتا ہے کون اپنے ارمانوں کا خون کرتا ہے۔ کوں سی ماں اپنے کلیجے کو خود اپنی آنکھوں کے سامنے ٹھندا ہوتے دیکھتی ہے ۔ اپنے ہاتھوں اپنے بچوں کا گلا گھونٹنے والا باپ اتنی پر سکون نیند کیونکر سو سکتا ہے۔ یہ ہے معاشرتی بے عدلی کا کرشمہ ۔۔۔۔ کہ جس کی بدولت کبھی یہ ننھے پھول کسی وحشی کی ہوس یا حرص کا نشانہ بن کر اپنے وجود کو کرب اور ازیت کی آگ کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ کبھی کوئی اغوا کار کوئی دہشت گرد اور کوئی بھکاری بن کے ان معصوم زندگیوں کو اپنے عزائم کے لیئے استعمال کرتا ہے۔ ہم انسانیت کا دعوی کرنے والے پل بھر کے لیئے جب ایسے واقعات پہ توجہ دیں تو یہ حرکتیں انسان نما مخلوق ہی کر رہی ہے اور حیرت ہے کہ وہ یہ سب کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کیئے ہوئے ہیں۔ بچے تو والدین کے آنگن کے مہکتے گلاب ہوتے ہیں اور فطرت کا قانون ہے کہ وہ شدید موسم میں ان پھولوں کو سخت آب و ہوا کے سپرد نہیں کرتی۔ اگر کوئی سکول جانے کی عمر میں اینٹوں کا بار اٹھائے یا کسی کار خانے کی تپش اور مشینوں کے شور میں بچپن گزارنے کا تجربہ کرے یا گاڑی مرمت کرتا دکھائی دے تو اس المیئے پہ زبان ہی نہیں آنکھیں بھی معترض ہوتی ہیں۔ اشک یوں رواں ہوتے ہیں کہ جیسے یہ خود پہ بیت رہی ہو اور کیوں نہ ہو جو انسان ہے اسے اپنی اس نام نہاد تہزیب پہ گلہ ہے ۔اپنے مستقبل کو اتنے سخت امتحان سے گزرتے دیکھ کر کوئی کیسے خاموش رہ سکتا ہے۔

ایسے حالات میں کوئی بچہ اپنی زندگی کی دعا اگر کرتا ہے یا کوئی خواب دیکھتا ہے جس میں وہ اپنی من پسند دنیا کا تخیل تعمیر کرےتو یہ \"kmsin\"ایک انسان کی امید ہے جو انسانیت پہ اپنا ایمان قائم کیئے ہوئے ہے۔ یہ انتہائی قابل قدر خاصیت ہے جس میں امید، یقین اور حوصلہ سبھی رنگ نمایاں ہیں۔ ان بچوں کی سوچ زندگی کے بارے میں مثبت رہنی چاہیئے اسکے لیئے مشقت اور اپنی عمر سے بڑی محنت کشی کو معاشرے سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ ان سے کام لیتے ہیں وہ کبھی اس بات کو جواز نہیں دے سکتے کہ وہ بچوں کو معاوضہ دیتے ہیں کیونکہ جو معاوضہ انہین ملتا ہو گا یقینا وہ بہت حقیر ہے اسی لیئے یہ لالچ انہیں آمادہ کرتی ہے کہ وہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں سے اتنی جان توڑ محنت کروائیں۔ جبکہ وہا ں جس ماحول میں وہ مزدوری کرتے ہیں اس ماحول کے ان پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کا اندازہ ہر اس شخص کو ہو سکتا ہے جو اس سماج کا فرد ہے۔ جنگ کی ہولناکیوں سے لیکر گلی محلے میں پیش آنے والی یہ روز کی داستان ہے جسے یہ معصوم جھیلتے ہیں محض اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھندا کرنے کے لیئے یہ دن انہیں دیکھنے پڑتے ہیں جبکہ دوسری طرف فراوانی مال اتنی ہے کہ امڈ امڈ کے باہر آتا ہے۔ کہیں امن کے نام پہ ہونے والی جنگوں نے قتل اور بے گھری کی صورت پیدا کر رکھی ہے تو دوسری طرف قحط اور بھوک نے قیامت پرپا کر رکھی ہے۔خدا معلوم کہ قاتل کوں ہے اور ہمدرد کون؟ لیکن شاید جنگ مین چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہین یہ سزا ہے جو طاقت ور کے ارادے اور فائدے کی محتاج ہے۔ گناہ گار اور بے گناہ کی تعریف و تشریح ہمیشہ طاقت ور کرتے ہیں جبکہ کمزور اور بے بس اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ بچے بھی برابری کے درجے پہ فائز نہیں ہو سکتے ۔ انکے کھیلنے کی عمر کو مزدوری کا داغ لگ جاتا ہے ۔ بچوں کی صلاحیتوں میں قدرت نے کمی نہیں رکھی ایک ہی فطرت کے تحت وہ جنم لیتے ہیں اور مکمل ذہن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں مگر دنیا میں ایک حد بندی ہے ایک سرحد ہے اور اس رکاوٹ کو ماننا پڑیگا جو کہا جائے اس پہ عمل کرنا پڑے گا۔ آزاد فطرت کو قربان کرنا پڑیگا چھوٹی عمر سے اپنے خوابوں کو قتل کرنا پڑیگا اگر چہ انکی آنکھوں کو قدرت نے خواب دیکھنے کے لیئے ہی بنا یا ہے ۔ انہی خوابوں کی اڑان نے انہیں روشن مستقبل کی دھرتی پہ اتارنا ہے جہاں ظلم اور بربریت کی آلودگی اور سفاکی کی زہر آلود ہواوں کا گزر بھی ممکن نہیں۔ ایک جنگ ہے قدرت کی کاریگری اور زمینی آقاوں کی خود سری میں، جو زندگی عطا کی گئی اسکا گھیرا تنگ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ یہ ہر چیز اور ہر قدر کی ہئیت اور شکل اپنی مرضی اور اپنی لالچ کے تحت تبدیل کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔

 لیکن ہم ان بچوں کو کیا بنانا چاہتے ہیں اور کیا بنا رہے ہیں، کل اگر ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ لوگ مجرم کیسے بنتے ہیں؟ لوگ دہشت گرد کیسے بنتے ہیں؟ لوگ چور ڈاکو اور لتیرے کیسے بتے ہیں؟ تو یہ سوالات در اصل انتہائی بے تکے اور فضول تصور ہونے چاہییں۔ یہ ظلم اور جبر کا درس ہماری سماجی زندگی دے رہی ہے یہ انتقام کا بیج ہم خود بو رہے ہیں۔ تعصب اور تفریق کی تبلیغ کے ہمارے بچے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ ہمارا دین اسکی تلقین کرتا ہے ۔ عقل پہ موجود پہریداری کو ہٹا کر حقائق کھلے زہن سے قبول کرنے کی ضرورت کو محسوس کرنا پڑے گا۔ آج اگر ہم بچوں کے مابین برتاؤ کے زریعے سماجی تفریق کو پیدا کریں گے تو کل یہی بچے اس فرق کو نمایاں کریںگے۔ مستقبل کے معماروں کو ہم نے اپنی خود غرضی کی سرگرمیوں کا حصہ بنا لیا ہے۔ خواب دیکھنے کی عمر کو ہم نے تلخیوں کی نظر کر دیا ہے۔ کاش ہم یہ جان سکیں کہ خوابوں کا قتل کرنے سے نسلیں اپاہج اور بھکاری بن جاتی ہیں۔ ہمیں خود سے سبق سیکھ کر اپنی نسل کے خوابوں کو آزاد کرانا چاہیئے کیونکہ خواب کبھی مر نہیں سکتے یہ اور بات ہے کہ ان میں نفرت اور انتقام کی آمیزش انکی پاکیزگی کو ناقص بنا دیتی ہے۔ تاریکی جتنی بھی سیاہ ہو بحرحال اسکو روشنی کی پہلی کرن مات دے دیتی ہے۔ مرض گہرا ہے مگر اس گہرے گھاؤ کو گہرے علاج کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments