کیا آپ کا بچہ کسی کھانے کی چیز سے الرجک ہے؟


کیا آپ جانتے ہیں آپ کا بچہ کس کھانے کی چیز سے الرجک ہے؟

کیا آپ کو خبر ہے کہ الرجک ری ایکشن کیا ہوتا ہے؟

کیا آپ اس بات سے واقف ہیں کہ اگر الرجک ری اکشن ہو جائے تو آپ کو اپنے بچے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

پچھلے ویکنڈ ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے ہم سب دوستوں نے بہت کچھ سیکھا۔ میں وہ واقعہ آپ سب سے شیر کرنا چاہتا ہوں ہو سکتا ہے اس سے آپ بھی کچھ سیکھ سکیں۔

اس واقعے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میرے ایک نوجوان دوست زین کا فون آیا۔ کہنے لگے ڈاکٹر سہیل ہم چند نوجوان دوست ایک ویکنڈ کے لیے ٹورانٹو سے تین گھنٹے شمال ایک کاٹیج میں جا رہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ ہم آپ کے ساتھ مختلف فلسفیانہ موضوعات پر تبادلہِ خیال کرنا چاہتے ہیں۔ پھر زین نے کہا ڈاکٹر سہیل۔ آپ کو وہ جگہ بہت پسند آئے گی کیونکہ اس کا نام بھی HOPE BAY ہے اور آپ ہم نوجوانوں کے لیے سراپا امید ہیں۔

میں نے کہا میں ضرور آپ کے ساتھ چلوں گا کیونکہ ذہین اور آزاد خیال نوجوانوں سے تبادلہِ خیال کرنا میرا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ پھر میں نے زین سے پوچھا کہ کیا میں اپنی بھانجی وردہ اور ان کی تین سالہ بیٹی الیزا۔ جسے میں بڑے پیار سے مونا لیزا کہتا ہوں۔ کو بھی اپنے ساتھ لا سکتا ہوں۔ زین نے کہا ’ضرور‘ الیزا بہت پیاری بچی ہے۔ جسے سب پسند کرتے ہیں۔ اس کی شرارتیں دیکھ کر سب ہنستے اور مسکراتے رہتے ہیں۔ ’

چنانچہ جمعے کے دن کلینک کے کام کے بعد میں وردہ کے گھر گیا اور وردہ اور الیزا کو لے کر شمال کی طرف ڈرائیو کرنے لگا۔ کینیڈا کے شمال کی بل کھاتی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے اور خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم رات نو بجے کاٹیج پہنچے۔ ہمارے دوست ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

وردہ کو اور مجھے سخت بھوک لگی تھی چنانچہ ہم نے جی بھر کر لذیذ کھانا کھایا۔ زین نے الیزا کو ٹی وی لگا کر دیا اور زین کے دوستوں نے جھیل کے کنارے آگ جلائی۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ نہ مچھر تھے نہ ہی تیز ہوا۔ جھیل ایک سادھوکے دل کی طرح پرسکون۔ کھانے کے بعد ہم آگ کے گرد بیٹھے محبت ’شادی‘ خاندان اور بچوں کے بارے میں نیم نفسیاتی اور نیم فلسفیانہ گفتگو کر رہے تھے کہ زین کے ایک دوست احمد نے آ کر بتایا کہ الیزا واش روم میں الٹیاں کر رہی ہے۔

میں فکرمند ہوا اور اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ الیزا بستر پر بے حال لیٹی ہے۔ اس کا چہرہ سرخ ہے اور وہ اپنے سارے بدن کو کھجا رہی ہے۔

میں نے وردہ سے کہا کہ یہ تو الرجک ری ایکشن ہے۔ کیا الیزا کسی کھانے کی چیز سے الرجک ہے؟ وردہ نے کہا ہاں یہ انڈے اور نٹس سے۔ جن میں مونگ پھلی اور کاجو شامل ہیں۔ الرجک ہے۔

پھر ہمیں احساس ہوا کہ الیزا نے غلطی سے ایک کاجو کھا لیا تھا۔

میں نے وردہ سے کہا کہ اس وقت رات کے بارہ بجے ہیں۔ ہمیں صبح تک انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں الیزا کو ہسپتال لے جانا چاہیے۔ زین نے انٹرنیٹ سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کاٹیج سے اٹھارہ کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا ہسپتال تھا جس کا ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ چوبیس گھنٹے کھلا تھا۔

چنانچہ میں نے گاڑی نکالی۔ ودرہ اور الیزا پچھلی سیٹ پر بیٹھے۔ زین میرا خضرِ راہ بنا اور ہم چاروں ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔

مزے کی بات یہ کہ الیزا اتنی خوش مزاج ہے کہ وہ بیمار ہونے کے باوجود ہنس کھیل رہی تھی اور اپنی ماں سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔

اندھیری رات میں جب چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی تھی اور سڑکیں سانپ کی طرح بل کھا رہی تھیں ہم پندرہ منٹ میں ہسپتال پہنچے۔

زین اندر گیا۔ ہسپتال کا دروازہ بند تھا۔ زین نے گھنٹی بجائی۔ نرس نے کیمرے میں پوچھا

کون ہے؟

زین

آپ کو کیا چاہیے؟

بچی بیمار ہے ڈاکٹر کو دکھانی ہے

بچی نظر نہیں آ رہی

وہ ماں کے پاس گاڑی میں ہے

اسے لے آؤ

چنانچہ وردہ الیزا کو لے کر اندر گئی اور میں نے گاڑی پارک کی۔

کینیڈا کے ہسپتالوں کے ایمرجنسی ڈیاپارٹمنٹ میں اکثر اوقات اتنا زیادہ رش ہوتا ہے کہ مریضوں کو چند گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن چونکہ وہ ہسپتال ایک ویرانے میں تھا اور رات کا ایک بجا تھا اس لیے ایمرجنسی میں بس ہم ہی تھے۔

نرس نے وردہ کا انٹرویو لیا۔ وردہ نے بتایا۔ الیزا ایک سال کی تھی جب اسے الرجک ری ایکشن ہوا تھا۔ جب ٹیسٹ ہوئے تو پتہ چلا کہ وہ انڈے ’مونگ پھلی اور کاجو سے الرجک ہے۔ اور دو گھنٹے پہلے اس نے انجانے میں ایک کاجو کھا لیا تھا۔

ڈاکٹر نے کہا آپ نے بہت اچھا کیا اسے جلد ہسپتال لے آئے۔ کیونکہ اگر الرجک ری ایکشن شدید ہو تو بچے کا گلہ بند اور سانس لینا دشوار ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر نے الیزا کو دوا دی اور مشورہ دیا کہ اسے ہسپتال میں چند گھنٹے رکھا جائے گا اور جب تک ڈاکٹر کو پوری تسلی نہیں ہو جائے گی کہ الیزا کی صحت پوری طرح بحال ہو گئی ہے وہ ڈسچارج نہیں ہوگی۔

ڈاکٹر نے وردہ کو ماں ہونے کے ناطے دو مشورے دیے۔ پہلا مشورہ یہ کہ وہ اپنے سب دوستوں ’رشتہ داروں اور ڈے کیر کے بے بی سٹرز کو یہ بات بتا دے کہ الیزا انڈوں، مونگ پھلی، کاجو اور نٹس سے الرجک ہے۔ کیونکہ وہ چھوٹی بچی ہے اسے ابھی سمجھ نہیں کہ کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا۔

دوسرا مشورہ یہ کہ وہ اپنے پاس ایپی پن کا ٹیکہ اور الرجی کی دوا رکھے تا کہ اگر الیزا غلطی سے کچھ ایسی چیز کھا لے جس سے وہ الرجک ہو تو وردہ اسے جلد ہی الرجی کی دوا دے سکے۔

یہ ہماری خوش بختی تھی کہ ہسپتال قریب تھا اور الیزا کا بر وقت علاج ہوا اور وہ صحت یاب ہو گئی۔ اور ہم سب نے سبق سیکھا کہ ہمیں اپنے دوستوں سے پوچھنا چاہیے کہ ان کے بچوں کو کوئی الرجی تو نہیں ہے تا کہ ہم سب بچوں کا خیال رکھ سکیں کیونکہ بچے ہم سب کے لیے قیمتی ہیں۔ بچے مسکراتے رہیں اور کھیلتے رہیں تو وہ ہم سب کو اچھے لگتے ہیں اور ہماری زندگی کی رونق اور خوشیاں بڑھاتے ہیں۔

یہ تو اچھا ہوا کہ الیزا کی نانی اماں۔ عنبر۔ جنہیں الیزا نانو پکارتی ہے۔ یہاں موجود نہیں تھیں ورنہ وہ ضرور کہتیں کہ الیزا اپنے سرخ سوٹ میں اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ اسے کسی کی نطر لگ گئی ہے اور اب ہمیں اس کے سر سے بیس ڈالر وار کر غریبوں کو دینے چاہئیں۔ عنبر چونکہ پاکستان میں رہتی ہیں اس لیے وہ نہیں جانتیں کہ کینیڈا میں تو غریب انسان تلاش کرنا بھی بعض دفعہ مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر مل بھی جائے تو وہ اکثر اوقات مزدوری کرنا چاہتا ہے۔ خیرات لینا پسند نہیں کرتا۔

اب آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ ڈاکٹر صاحب۔ کہانی میں نانو کا ذکر غیر ضروری ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ کہانی کی ہیروئن الیزا ہے اور الیزا جب سے اپنی نانو کے پاس لاہور رہ کر آئی ہے وہ مجھے بھی نانو کہتی ہے۔ وردہ لاکھ الیزا سے کہے کہ یہ سہیل ماموں ہیں، نانو نہیں لیکن وہ مصر ہوتی ہے کہ اسے نانو ہی کہنا ہے۔ میں نے بھی اسے قبول کر لیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے کہ اسے مجھ میں بھی اپنی نانو دکھائی دیتی ہے اور چونکہ میں اپنی بہن عنبر سے بہت پیار کرتا ہوں اس لیے الیزا کو مجھ میں عنبر کا نطر آنا میرے لیے باعثِ فخر ہے۔

آخری بات یہ کہ الیزا۔ میری مونا لیزا۔ مجھے بہت عزیز ہے۔ میرا اس سے ایسا پیار کا خصوصی رشتہ ہے کہ میں نے اپنی خود نوشتہ سوانح عمری۔ دی سیکر۔ THE SEEKER۔ کا انتساب اگلی نسل کی نمائندہ الیزا کے نام ہی کیا ہے۔

میری دل کی گہرائیوں سے خواہش ہے کہ الیزا ہمیشہ خوش رہے اور مسکراتی رہے۔ اور سب سے اہم بات کہ صحتمند رہے۔ میرا ایک شعر ہے

وہ جس کسی کی بھی آغوشِ جاں کے بچے ہیں

نویدِ صبح ہیں سارے جہاں کے بچے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail