جو شخص ماہرہ خان کی تصویر کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے وہ۔۔۔


آج کل تو ہمیں یہ جنسی بھوک کی زیادتی ہی لے کر بیٹھ گئی ہے۔ بات یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی غیر فطری بات ہے یا پہلے زمانوں کے لوگوں میں یہ بھوک کم تھی اور اب زیادہ ہے۔ مگر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اب اس بھوک کی اشتہا کو بڑھانے میں خارجی چیزوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ چاہے وہ بے باک ڈراموں، فلموں، گانوں، ڈانسز، بولڈ اشتہارات و پوسٹرز کی صورت یا پھر فحش ویڈیوز کی شکل میں۔ اور پھر اوپر سے ان سب تک رسائی بھی بہت آسان و سستی ہو چکی ہو۔

اگر ہمارا ماحول بہت مثبت ہو تو اندر سے بھوک مٹانے کی اٹھتی صدا کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ یا پھر جائز تعلقات کے ساتھ اس مقصد کی تکمیل کی جا سکتی ہے۔ مگر جب اچھا ماحول میسر نہ ہو، تربیت میں کوئی جھول ہو یا پھر آج کل کا سنگین مسئلہ کہ شادی میں دیری ہو تو نفس پر قابو پانا واقعی مشکل ہوتا ہے۔ چلیں تعلیم یافتہ اور عقل رکھنے والے افراد پھر بھی کسی غلط طریقے سے اس فطری تسکین کے حصول سے باز رہتے ہیں۔ مگر مسئلہ ان لوگوں کو پڑتا ہے جو ذہنی بیمار ہوں یا کسی جنسی مسئلہ کا شکار ہوں تبھی ایسے لوگوں پر نظر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ دیکھا، جس میں ایک ظاہری طور پر پاگل دِکھنے والا شخص کھلے عام بے باک حرکات کرتے نظر آیا۔ آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح ایک پوسٹر پر چٙھپی اداکارہ ماہرہ خان کی تصویر ساتھ چپکا ہوا ہے۔ کیا ایسی گندی سی ظاہری حالت والا بندہ پاگل نظر آ رہا ہے؟ کیا ایسا بندہ گلی محلوں میں آنے جانے والے بچوں کے لئے خطرناک ثابت نہیں ہو سکتا؟ جو صرف ایک تصویر ساتھ اپنی ہوس پوری کر رہا ہو، کیا وہ مکمل تسکین کے لئے کوئی گھناونا کام نہیں کر سکتا؟

آج کل ایسے حلیے والے افراد تقریباً ہر شہر میں ہی پائے جانے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں پہلے ہی معصوم بچوں کے ساتھ ریپ، اغوا و قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں تو وہاں ایسے لوگوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ یہ کون لوگ ہیں، کیسے ایسے بنتے ہیں، کہاں آتے جاتے ہیں؟ وغیرہ کی تفشیش کرنا بہت ضروری ہے۔ اور اگر ایسے لوگ کسی محرومی یا بیماری کا شکار ہیں یا کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں تو ان کے علاج میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔

حرفِ آخر یہی کہ اگر ہمیں ایسے افراد اس ویڈیو کی طرح کی حرکات کرتے نظر آئیں تو اس کو صرف ایک مذاق کے طور پر مت لیں بلکہ پولیس کے نوٹس میں لائیں۔ پھر پولیس کو بھی چاہیے کہ اس کو نظر انداز نہ کریں۔ باقاعدہ تفشیش کریں اور ضرورت پڑنے پر نفسیاتی ہسپتال کے حوالہ کریں جہاں ان کا علاج ہو تاکہ جنس کی بھوک ان کو درندہ نہ بنا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).