وہ کھیلتے کھیلتے بے ہوش ہو گئی تھی


فتح محمد نے جیسے ہی زیبرا کراسنگ پر قدم رکھا، پیدل چلنے والا اشارہ سرخ ہو گیا۔ اس نے اشارے کے ٹائمر کو دیکھا ہی نہ تھا، شاید اسے اس کا علم ہی نہ ہو۔ ایک سیکنڈ میں حادثہ ہو گیا۔ ایک واکس ویگن اس سے ٹکرائی اور وہ سڑک پر گرگیا۔ اس کے اوسان بحال ہوئے تو دو پولیس والے اور واکس ویگن کا ڈرائیور اسے سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اس کی پیشانی میں ٹیس سی اٹھ رہی تھی۔ اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا تو خون کے چند قطروں نے اس کا ہاتھ تھوڑا گیلا کر دیا۔

وہ ہوش میں تھا اور توانا، چند سیکنڈ میں ہی اٹھر کر کھڑا ہو گیا۔ اسی اثنا میں ایمبولنس آچکی تھی۔ اس نے لاکھ انکار کیا، یقین دلایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، مکمل ہوش و حواس میں ہے، اسے میڈیکل ایڈ کی ضرورت نہ ہے، وہ اپنے پاوں پر چل کر اپنے گھر تک جاسکتا ہے، مگر بیکار، اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں اسے داخل کر لیا گیا۔ نیویارک کا یہ ہسپتال اس کی زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔ اس کے ذہن میں اپنے گاؤں کا وہ ہسپتال تھا جہاں اس کے باپ نے ایڑیاں رگڑتے رگڑتے جان دی تھی۔

اس رات ہسپتال کا اکلوتا ڈاکٹر چھٹی پر تھا، اس کی ٹریٹمنٹ ایک ڈسپنسر نے کی تھی۔ ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر تو تھا، اس میں آکسیجن ختم ہو چکی تھی۔ پہلے پہل تو فتح محمند نے یہاں بھی ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، پھر اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ بس فکر تھی تو بل کی، ہسپتال کا بل کون دے گا، اس کی تو جیب خالی تھی۔ وہ دودن ہسپتال رہا اور بہت مزے میں رہا۔ اس کا ایکس رے ہوا۔ سی ٹی سکین ہوا اور کئی ٹیسٹ۔ یہیں اس کو پہلی بار پتہ چلا کہ اس کو تھوڑی شوگر بھی ہے۔ ڈسچارج کے وقت اس سے کوئی بل نہیں لیا گیا جس پر اسے بہت حیرانگی ہوئی۔

فتح محمند ہمارا محلے دار تھا، تبلیغی تھا، تبلیغ کے سلسلے میں ایک بار امریکہ آیا اور غائب ہوگیا۔ نمودار ہوا تو گرین کارڈ ہولڈر تھا۔ کب، کیسے، کیوں، یہ سب باتیں اس نے کبھی نہ بتائیں۔ اس کی ایک خوبی تھی، جب پاکستان آتا مجھے ضرور مل کے جاتا۔ چائے کے کپ پر اس سے ملاقات ہمیشہ خوشگوار رہتی۔ اس حادثے کے چھ ماہ بعد فتح محمد کو پندرہ ڈالر کا چیک موصول ہوا، ساتھ میں حساب کتاب کا ایک پرچہ، یہ ہسپتال کا بل تھا۔ جس شخص کی گاڑی نے فتح محمند کو ٹکّر ماری تھی، عدالت میں اس کا کیس چلا تھا، اس کو جرمانہ ہوا تھا، اسی جرمانے سے ہسپتال کا بل ادا ہوا، پندرہ ڈالر بل سے زائد تھے جو فتح محمند کو لوٹا دیے گئے۔

درا صل سر کی چوٹ کے نتائج اتنے غیر یقینی ہوتے ہیں کہ مریض کو کم از کم چھتیس گھنٹے تک زیر مشاہدہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ لاہور جنرل ہسپتال میں کام کیا ہے۔ یہ ضیا الحق کا دور تھا اور پورے پنجاب میں صرف ایک سی ٹی سکین مشین تھی جو لاہور جنرل ہسپتال میں لگی تھی۔ آج کل تو ہر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں یہ سہولت موجود ہے۔ جنرل ہسپتال میں ایک ہیڈ انجری یونٹ تھا اور پندرہ نمبر وارڈ نیورو کا آی سی یو۔

اس کے دو دروازے تھے۔ ایک دروازے سے مریض سٹریچر پر پڑا داخل ہوتا تھا، دوسرے دروازے پر ایمبولینس اس کی ڈیڈ باڈی لینے کے لئے تیار کھڑی رہتی تھی، کہ یہاں ٹرن اور بہت سپیڈی تھا۔ اس وارڈ میں ڈاکٹر اور سٹاف کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے ایک برگیڈئیر صاحب جو کسی مریض کا پتہ کرنے آئے تھے، گیٹ پر ہاوس افسر نے روک لیا، اندر نہیں جانے دیا۔ تھوڑی دیر میں ایم ایس بھاگتا ہوا آیا اور برگیڈئیر صاحب سے ہزار معذرتیں کرتا ہوا مریض کے پاس لے گیا۔ انہی دنوں قصور کے قریب مشہور اداکار اسلم پرویز کا حادثہ ہوا۔ وہ بھی اسی آئی سی یو میں داخل رہا تھا۔ اس کو دیکھنے ہسپتال کی نرسوں اور ڈاکٹروں کا رش لگ گیا تھا۔ اسلم پرویز زخموں کی تاب نہ لا سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اس کے سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی تھی۔

مجھے یاد پڑتا ہے، نوّے کی دہائی میں میں ایمرجنسی میڈیکل افسر لگا ہوا تھا۔ ایک شام تین چار میڈیکولیگل کیس معائینے کے لئے بذریعہ پولیس لائے گئے۔ ان کو لڑائی میں چوٹیں لگی تھی۔ اس لڑائی میں لاٹھیاں اور سوٹے چلے تھے۔ دو افراد تو شدید زخمی تھے۔ ان کے سر پھٹ گئے تھے اور وہ لہو لہان تھے۔ ان کو تو ہسپتال میں علاج کے لئے داخل کر لیا۔ ان کے ساتھ ایک دس سال کی بچی بھی تھی جس کے سر پر ہلکی سی خراش آئی تھی۔ پولیس نے اس کا میڈیکل بھی نہ بنوایا، کہ اتنی سی خراش کا کیا پرچہ کٹوائیں۔

وہ بچی تھی بھی ٹھیک ٹھاک۔ اس کی خراش پر ڈسپنسر نے پایوڈین لگائی اور وہ گھر چلی گئی۔ اگلے دن شام کو میں ڈیوٹی پر پہنچا تو پولیس ایک ڈیڈ باڈی کے ساتھ میری منتظر تھی، جس کا میں نے پوسٹ مارٹم کرنا تھا۔ میں نے دیکھا، یہ تو وہی بچّی تھی جو ایک روز پہلے ان زخمیوں کے ساتھ آئی تھی جن کی میں نے میڈیکولیگل رپورٹ بنائی تھی۔ اس بچی کے گھر والوں نے بتایا کہ یہ تو دوسرے بچوں کے ساتھ دوپہر تک کھیل رہی تھی۔ اچانک یہ گری ہے اور پھر بے ہوش ہو گئی ہے۔

گاؤں کے کسی ڈاکٹر کو بلایا تھا، اس نے کہا شہر لے جاؤ۔ یہ راستے میں ہی دم توڑ گئی۔ اس کا پوسٹ مارٹم کیا تو پتہ چلا کہ اس کے سر پر جو خراش آئی تھی، وہ لاٹھی کی چوٹ سے آئی تھی، جس سے اگرچہ سر کی ہڈی تو نہیں ٹوٹی لیکن سر کی ہڈی کے نیچے خون کی نالی سے خون رسنا شروع ہو گیا اور وہ خون ایک بڑے لوتھڑے کی شکل میں دماغ کا پریشر بڑھاتا رہا، حتٰی کہ دماغ کا پریشر اتنا بڑھا کی اس کی موت واقع ہو گئی۔

فتح محمند کو امریکہ میں سر کی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال داخل کرکے اس کا سی ٹی سکین کرنے کے بعد بھی ابزرویشن میں رکھا گیا کہ سر کی چوٹ اہستہ اہستہ بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).