پاکستان کی موروثی، خاندانی، لسانی سیاست اور ہماری ذہنی غلامی


”اب میرا بیٹا، مولانا کا بیٹا اور مریم بی بی اپوزیشن کو لیڈ کریں گے۔ اب ہم آرام کریں گے، نئی نسل کا م سنبھالے گی“۔ یہ الفاظ پچھلے دنوں احتساب عدالت سے باہر آتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے ادا کیے۔ یہ الفاظ نہیں زناٹے دار تھپڑ ہیں، شعور سے عاری، ذاتی مفادات کی حریص اور ذات برادری کی تفریق میں اٹکی اس پیش رو قوم کے منہ پر کہ جس نے آلِ شریف، اولادِ بھٹو، زرداری اور فضل الرحمان جیسوں کی بے تکی عقیدت و چاپلوسی سے یہ نوبت پیدا کر دی ہے کہ اب ان حاکموں کی ”اگلی نسل“ ذہنی غلاموں کی ”اگلی نسل“ کو ”ٹیک اوور“ کرے گی۔ یہ الفاظ سن کر خیال آیا کہ آخرہم کب اس ”نسل در نسل“ بادشاہت سے سے جان چھڑائیں گے؟ کب تک ”اپنڑ ی قوم دا اے“ کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے ؟

ہم آج بھی ”نسل در نسل“ حکمرانوں کے شوقین ہیں اور اس بات کا ثبوت 2013 کے انتخابات میں دے چکے ہیں، تب یہی عمران خان ”نئے چہروں“ کے ساتھ میدان میں اترا تھا لیکن ہماری غلام سوچ نے انہیں ووٹ دینا گوارا نہیں کیا۔ 2018 میں جب وہی عمران خان ”چلے کارتوسوں“ کے ساتھ میدان میں آئے تو کامیاب ٹھہرے۔

پاکستان کے اکثر سیاسی خاندان برِ صغیر میں برطانوی حکومت کے دوران انگریزوں کے وفادار تھے۔ اس وفاداری کے بدلے میں انہیں جائیدادیں عطا کی گئیں جس کے بعد کوئی لغاری سردار، مزاری سردار، کھوسہ سردار، کوئی چوہدری، کوئی نواب تو کوئی راجہ بن گیا۔ پاکستانی حکومت پر اس ”مخصوص ٹولے“ کے قبضے کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ مثال کے طور پر میرے اپنے ڈویژن ڈیرہ غازی خان کے دو سیاسی خاندانوں کے سیاسی ادوار پیشِ خدمت ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کے مزاری قبیلے کے سیاسی دور پر نظر دوڑائیں تو 1951 میں جب میاں ممتاز دولتانہ مسلم لیگ پنجاب کے صدر منتخب ہوئے تو بلخ شیر مزاری ان کے فنانس سیکرٹری تھے، 1962 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، 970 1 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے اور ”مزاری قبیلہ“ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔ 1970 کے انتخابات میں سردار شیر باز مزاری بھی آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔ 1974 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو ایک نئی سیاسی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی وجود میں آئی اور سردار شیر باز مزاری اس کے صدر بنے۔

قومی اتحاد کی بنیاد پڑی تو شیر باز مزاری کی پارٹی اس اتحاد کا حصہ بن گئے۔ ضیا الحق نے مجلسِ شوریٰ بنائی تو بلخ شیر مزاری اس کے رکن تھے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے پاکستان بھر میں سب سے زیادہ 84443 ووٹ حاصل کیے۔ اس خاندان کے سردار عاشق مزاری نے محکمۂ صنعت کے صوبائی سیکرٹری کے طور پر کچھ ایسا ”جادو چلایا“ کہ ملک بھر کے اہم صنعتی گھرانوں میں شامل ہو گئے۔ سردار عاشق مزاری کے داماد مسٹر شوکت مزاری بھی ممبر صوبائی اسمبلی اور 77 ء کے مارشل لاء تک وزیر رہے۔ محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کیے جانے کے وقت یہ افواہ بھی گرم رہی کہ میر بلخ شیر مزاری کو وزیرِ داخلہ بنایا جا رہا ہے۔

1988 کے انتخابات مزاری خاندان کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہ ہوئے، بلخ شیر اپنی آبائی سیٹ کھو بیٹھے اور سردار شیرباز سردار عاشق مزاری سے ہار گئے اور انہیں صرف 10565 ووٹ ملے۔ اسی خاندان کی بیگم در شہوار مزاری، خواتین کی مخصوص نشستوں پر ممبر قومی اسمبلی بھی رہیں۔ 90 ء اور 93 ء کے الیکشن میں بلخ شیر مزاری کامیاب رہے۔ 2008 کے الیکشن میں میر دوست محمد مزاری (بلخ شیر مزاری کے پوتے ) قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2018 کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی رکنیت حاصل کر کے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی نشست پر براجمان ہیں۔

ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والا دوسرا خاندان ”لغاری خاندان“ ہے۔ محمد خان لغاری ممتاز دولتانہ کے دور میں تعمیراتِ عامہ اور بجلی کے وزیر تھے۔ ایوب دور میں سیاست سے نا اہل قرار دیے گئے۔ 1965 کے انتخابات میں اسی خاندان کے سردار محمود خان لغاری بلا مقابلہ ممبر اسمبلی بنے۔ 1970 میں محمد خان لغاری ممبر صوبائی اسمبلی بنے اور تھوڑے عرصے بعد فوت ہو گئے تو اس حلقے سے ان کے چھوٹے بھائی سردار عطا محمد منتخب ہوئے۔

1975 میں محمد خان لغاری کے صاحبزادے سردار فاروق لغاری سینٹر بنے اور اسی دوران پی پی پنجاب کے فنانس سیکرٹری بھی رہے۔ 1978 میں فاروق لغاری وفاقی وزیر بنائے گئے۔ سردار جمال خان لغاری کی بیٹی عفیفہ ممدوٹ ضیا الحق کے مارشل لاء دور میں وزیر رہیں۔ 1985 کے انتخابات میں سردار مقصود خان لغاری کامیاب ہوئے۔ 1988 کے انتخابات میں سردار فاروق لغاری اپنی پھوپھی عفیفہ ممدوٹ اور چچا عطا محمد کو ہرا کر ممبر اسمبلی بنے۔

اسی الیکشن میں سردار عطا لغاری کے بیٹے جعفر خان لغاری بھی کامیاب ہوئے۔ مقصود لغاری محمد خان جونیجو کی وفاقی کابینہ کا حصہ رہے۔ 1990 کے انتخابات میں لغاری خاندان کامیاب رہا، فاروق لغاری، مقصود لغاری اور منصور احمد لغاری ممبر اسمبلی بنے۔ یہی فاروق لغاری صدرِ پاکستان بھی رہے اور منتخب وزیرِ اعظم کو آرٹیکل 58۔ 2 (b) کے تحت گھر بھیجا۔ اسی خاندان کے جعفر لغاری اور اویس لغاری متعدد بار ممبر اسمبلی رہے ہیں۔ اویس لغاری مشرف کابینہ کا حصہ رہے اور پانامہ کیس میں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کا بھی حصہ رہے۔ اسی خاندان کے سردار محمد خان لغاری موجودہ حکومت میں ممبر قومی اسمبلی ہیں۔

یہ تو ایک ہی علاقے کے صرف دو خاندانوں کی مثال دی ہے۔ درجنوں اور ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں ڈی۔ جی۔ خان کے کھوسے، دریشک، بہاول پور کے نواب عباسی، مظفر گڑھ کے گورمانی، لڈھن کے دولتانے، ملتان کے سید، خانیوال کے ڈاہے، گوجرانوالہ کے چٹھے، گجرات کے چوہدری، کمالیہ کے کھرل، جھنگ کے سید اور سیال، سرگودھا کے ٹوانے، پنڈدادن خان کے کھوکھر، جہلم کے راجے اٹک کے گوندل اور اعوان، کالا باغ کے نواب اور میانوالی کے نیازی وغیرہ شامل ہیں۔

پوری تحریر ”تمہیدی“ انداز میں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری قومی اسمبلی آج بھی ”قومی“ نہیں بلکہ چند قبیلوں اور خاندانوں سے بھری پڑی ہے جو ہماری ”موروثی، خاندانی“ سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت قومی اسمبلی میں 27 کے قریب بلوچ ممبر قومی اسمبلی ہیں جن میں خضدار سے سردار اختر مینگل، فیصل آباد سے علی گوہر بلوچ، ڈیرہ غازی خان سے امجد فاروق کھوسہ اور محمد خان لغاری، راجن پور سے جعفر خان لغاری اور نصراللہ دریشک، کشمور سے احسان مزاری، گھوٹکی سے خالد لنڈ، نواب شاہ سے آصف زرداری، سانگھڑ سے شازیہ مری، میر پور خاص سے منور علی تالپور، عمر کوٹ سے نواب محمد یوسف تالپور، بدین سے غلام علی تالپور، دادو سے عرفان لغاری اور رفیق جمالی، لیاری سے عبدالشکور شاد، ڈیرہ بگٹی سے شاہ زین بگٹی، جعفر آباد سے خان محمد جمالی، کوئٹہ سے آغا حسن بلوچ، چاغی سے محمد ہاشم اور خواتین کی مخصوص نشست پر شیری مزاری، ناز بلوچ، شہناز بلوچ اور منورہ بی بی بلوچ شامل ہیں۔ جو نامور بلوچ سیاستدان اس وقت اسمبلی کا حصہ نہیں ان میں یار محمد رند، سعید اکبر نوانی، میر بادشاہ خان قیصرانی، میر ظفر اللہ خان جمالی، اویس خان لغاری، لیاقت بلوچ، صدیق بلوچ اور غلام مرتضیٰ جتوئی شامل ہیں۔

اب اگر بات کریں ”سیدوں“ اور ”گدی نشینوں“ کی تو ان کی قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 34 کے قریب ہے جن میں گجرات سے سید فیض الحسن، سیالکوٹ کے سید افتخارالحسن، سرگودھا سے سید جاوید حسنین، ساہیوال سے سید عمران شاہ، خانیوال سے سید فخر امام، بہاول پور سے سمیع الحسن گیلانی، رحیم یار خان سے سید مبین احمد، مخدوم خسرو بختیار، سید مصطفی محمود اور سید مرتضیٰ محمود، مظفر گڑھ سے سید باسط سلطان، جھنگ سے پیر محبوب سلطان اور امیر سلطان، ننکانہ سے اعجاز احمد شاہ، ملتان سے شاہ محمود قریشی اور زین قریشی، دیر سے محبوب شاہ، مستونگ سے سید محمود شاہ، سکھر سے سید خورشید شاہ، خیرپور سے نفیسہ شاہ، سید فضل علی شاہ جیلانی اور سید جاوید علی شاہ جیلانی، میر پور خاص سے علی نواز شاہ، شہید بینظیر آباد سے سید غلام مصطفی شاہ، تھرپارکر سے نور محمد شاہ جیلانی اور مخدوم زمان، مٹیاری سے مخدوم جمیل الزماں، حیدر آباد سے سید حسین طارق، ٹنڈو محمد خان سے سید نوید قمر، سجاول سے سید ایاز علی شاہ، کراچی سے سید آغا رفیع اللہ، سید علی زیدی اورسید امین الحق شامل ہیں۔

پنجاب کی ”جٹ“ قوم کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد ایک انتہائی سرسری جائزے کے مطابق 22 کے قریب ہے جن میں فواد چوہدری، سالک حسین، چوہدری فرخ الطاف، چوہدری حسین الہی، مونس الہی، نثار احمد چیمہ، محمود بشیر ورک، ذولفقار علی بھنڈر، اظہر قیوم ناہرا، عامر سلطان، خالد جاوید وڑائچ، جنید چوہدری، چوہدری خالد جاوید، طالب حسین نکئی، طارق بشیر چیمہ، احسان الحق باجوہ، جاوید اقبال و ڑائچ، اکرم چیمہ، ریاض فتیانہ، ناصر اقبال بھوسال، غلام بی بی بھروانہ اور ارشاد احمد سیال شامل ہیں۔

یہ تو صرف تین قوموں یا خاندانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سب کے بعد بھی ہم تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ کیوں؟ کیا ہم زبان اور برادری کے تعصب سے پاک ہو کر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں؟ ”ساڈی قوم دا اے“ کے علاوہ بھی نمائندے کو ”ماپنے“ کا کوئی سکیل ہے ہمارے پاس؟ سرائیکی، سرائیکی کو اور پنجابی، پنجابی کو ووٹ دیتا ہے، اس ”شعبدہ بازی“ سے ہم کب باہر آئیں گے؟

خدارا ایک مرتبہ زبان، برادری اور قبیلے کے تعصب سے پاک ہو کر ووٹ دیں اور ”نئے چہروں“ کو اپنا نمائندہ منتخب کریں ورنہ ہر کسی کو عمران خان کی طرح ”مجبور“ ہو کر ”پرانے پاپیوں“ کے ذریعے حکومت بنانا پڑے گی۔ ایسے موروثی سیاست کے اسیروں کے ذریعے تو تبدیلی نہیں آئے گی۔ خدارا نظام بدلنے کی باتوں سے پہلے اپنی سوچ بدلو، نظام خود ہی بدل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).