بھلا کٹھ پتلیوں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟


کسی بھی جنگ میں پہلا شکار سچ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، سب ہارتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کودہرانے سے نہیں ان کے ازالہ سے قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم اور سیکورٹی فورسسز کے درمیان جاری ٹینشن میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں چوکی پر حملہ کیا گیا، پشتون تحفظ موومنٹ کے کا رکنان گرفتار دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو چھڑانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لئے بویا میں واقع خارکمر چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی۔ جب کھ پی ٹی ایم کا موقف ہے کھ پر امن مظاہرین پر سیکورٹی فورسز نے فائرنگ کی اور فوجی ترجمان کا بیان حقائق کے منافی ہے۔ پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما منظور پشتین کا دعوی ہے اتوار کو پیش آنے والا واقعہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دی جانے والی دھمکی، آپ کا وقت ختم ہو چکا ہے، کا تسلسل ہے۔

اس افسوسناک واقعے پر ریاست کا کردار پر بھی کافی سوالات اٹھتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ فائرنگ فوج پر ہوئی ہے یا پی ٹی ایم پر سوال یہ ہے کھ اس وقت ہمارے پرائم منسٹر موجودہ حکومت کی کیا اسٹیٹ پالیسی ہے؟ حکومت یا وزیر داخلہ کی طرف سے کوئی بیان کیوں نہیں آیا؟ موجودہ حکومت کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر ملک میں پارلیمنٹ کا وجود ہے اور ایک منتخب حکومت برسر اقتدار ہے تو اہم قومی امور پر بیان دینے کے لئے پاک فوج کے ترجمان کو کیوں سامنے آنا پڑا؟

ایگزیکٹیو معاملات میں پالیسی بیاں دینا آئین کی رو سے وزیر داخلہ کا کام ہے یا ڈی جی آئی ایس پی آر کا؟ اس موقع پر سیاستدانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ دو سالوں میں جب کبھی کسی طبقے کو انسانی حقوق کے حوالے سے کوئی شکایت لاحق ہوئی، بلاول بھٹو نے الفاظ چبائے بغیر اپنا رد عمل دیا۔ واجبی سا سہی، مگر بلوچستان کے لاپتہ افراد کے حوالے سے واحد انہی کی آواز کا حوالہ ملتا ہے۔ پی ٹی ایم کے حوالے سے بھی بلاول نے جان دار موقف پیش کیا۔

پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا سکتا ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ حکمران جماعت پارلیمنٹ سے قریباً لاتعلق ہی رہی جس سے غیرسیاسی قوتوں کو اپنی اخلاقی دلیل کے ذریعے حکومت کو پچھاڑنے کا موقع مل گیا۔ جب پارلیمنٹ بیانیے کی تشکیل اور تنازعات کو سلجھانے میں اپنا قائدانہ کردار ادا نہیں کرتی تو پھر ایسا خلا جنم لیتا ہے جس سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پشتون کے خلاف تعصب کا بیانیہ ایک پروپیگنڈا ہے، وہ پشتون عوام کو حقوق کے نام پر ریاستی اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں۔ جس میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی ملک مین بیرونی قوتیں کب اترتی ہیں اور اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟

اگر عوام کو ایک جیسے حقوق ملے تو منظور پشتون جیسے لوگ منظر عام پر کیوں آئینگے؟ اور اگر آ بھی گئے ہیں تو جائز مطالبات لے کر تو اُن کے مُطالبات پورے کیوں نہیں کیے جا رہے۔ اُن کو غدّار اور ایجنٹ کہنا تو اس مسلے کا حل نہیں۔ پی ٹی ایم کے جلسے میڈیا پر دکھائے گئے نہ ان کے رہنماؤں کو ٹاک شوز پر اپنی رائے دینے کی جگہ میسر ہوئی۔ اخباروں میں ان کی خبروں کا بلیک آؤٹ کیا گیا اور سوشل میڈیا پر اس تحریک کے خلاف انتہائی پرزور مہم چلتی رہی جس میں انھیں ملک دشمن اور غدار قرار دیا گیا۔

”منظور پشتون“ بھی اُتنا پاکستانی ہے جتنا کوئی جرنیل یا سیاستدان۔ یہ سب کب تک چلتا رہے گا کس کس کے منہ بند کریں گے اور کس کس کو چور، غدار اور ڈاکو قرار دیں گے؟ ہم ہر بات کا حل گولی اور گالی میں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ سب سے پہلے تو اپنی یہ غلط فہمی دور کر لینا چاہیے کہ اگر کوئی بھی پاکستانی باشندہ اپنے ملک کے اداروں پر بجا تنقید کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غدّار ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کی طرح محبِ وطن ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر اور حقیقت پسند بھی ہے۔

میں تنقید برائے اصلاح کا قائل ہوں۔ کوئی بھی بندہ اپنے ملک کے اداروں کی پالیسیوں سے اختلاف کا حق رکھتا ہے۔ بس یہ اختلاف حقائق اور سچائی پر مبنی ہونی چاہیے۔ لیکن فرشتہ کیس میں پی ٹی ایم کے کچھ لیڈران نے غیر ذمہ دار رویہ اختیار کیا۔ مجھے بیرون ملک پی ٹی ایم کے احتجاج جس میں پاکستان کے بارے برے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اس پر اتنے ہی تحفظات ہیں جتنے فوج کے سیاسی معملات میں مداخلت پر ہے۔

کوئی بھی آئین پاکستان کے خلاف بات کرے، ملکی سلامتی اور ملک کے خلاف زہر اگلے کا اس کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے لیکن قانون کے مطابق، کسی کو غیر قانونی طریقے سے سزا دینا یا گمشدہ کردینا اس شخص کو مظلوم بنا دیتا ہے۔ کسی ریاست میں کوئی شہری اپنے تحفظ کی اتنی گارنٹی مانگتا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ریاست اس کی اپنی ہے۔ اور اسی احساس تحفظ کی بناہ پر وہ ریاست سے اپنا لگاؤ برقرار رکھ سکے۔ لیکن ریاست کا تاریخی پس منظر ہمیں بتاتا ہے کہ ریاست بسا اوقات شہری کو اس لئے مایوس کردیتا ہے کہ وہ مکالمے کی آئینی گنجائش ختم کردیتا ہے۔

اس ملک میں آبادی کے لحاظ سے چھوٹی قومیتوں کی اصل حیثیت کیا ہے؟ اور وہ اپنے حقوق کا تحفظ کس طرح یقینی بنا سکتی ہیں کیونکہ تقریباً سبھی قوموں کو ریاست اور اس کے اداروں سے شکایات ہیں۔ اس ملک میں بسنے والے ہر شخص کو عزت، امن، تحفظ اور ترقی دینا ریاست کی ذمہ داری اور دستوری ضمانت سے ممکن کی۔

میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں جگہ پر بجائے کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے مسائل کو مزید گھمبیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا حالات کو ایسا پیش کر رہے ہیں کہ جیسا کہ ہماری فوج کسی دشمن کے خلاف نبرد ازما ہے۔ دوسری طرف جو لوگ پی ٹی ایم کو ورغلا ریھے ہیں تو ایسا لگ رہا ہے جیسا کو وہ کسی دشمن ملک کی فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے ہیں۔ سوشل میڈیا اور بعض نیوز چینلز بھرپور کوشش میں لگے ہیں۔ کہ فوج کو اپنے ہی لوگوں کے خلاف ایک بار پھر استعمال کرے۔ دوسری طرف پی ٹی ایم کو بھی ورغلایا جارہا ہے۔ کہ فوج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ سوشل میڈیا پر ”وی سٹینڈ ود پاکستان آرمی“ اور ”سٹیٹ اٹیک پی ٹی ایم“ کے ہیش ٹیگ چل رہے ہیں۔

دونوں طرف اگر پاکستان کے بیٹے ہیں تو سیاسی، صحافتی حلقوں سمیت ریاست کے تمام اداروں کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے، ورنہ ایک بار پھر پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس وقت مکالمے کی ضرورت ہے کھ مکالمہ ایسے مسائل کے حل میں مدد دیتا ہے جو پیچیدہ ہوں اور تنازعات کی وجہ بن سکتے ہوں۔ مکالمے کے دوران ہم دُوسروں کی بات اس لیے سنتے ہیں تاکہ ہم اُن کے مؤقف کو جان سکیں، مشترکہ معانی تلاش کرسکیں اوروہ مقامات تلاش کرسکیں جہاں تعاون ممکن ہو۔ مکالمے کے دوران ہماری توجہ مسئلہ پر مرکوز ہوتی ہے۔ لیکن ہم دُوسروں کو بھی پُورا موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنا مؤقف بیان کرسکیں۔

عقیدت کے چشمے اتار کر کھلی انکھوں سے افراد، اداروں اور شخصیتوں کا از سر نوع جائزہ لئیجئے۔ وہ عقیدت جو ہم نے اداروں اور افراد کے ساتھ وابستہ کی ہے۔ ان حکمرانوں اور اداروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی ہو گی کہ عوام کی طاقت جب ان کے پاس ہوگی تو یہ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کامیابیا ں سمیٹ سکتے ہیں۔ عوامی طاقت نہ رکھنے والے ادارے، ملک اور ریاستیں شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).