بلاول کی للکار سے لرزہ کیوں طاری ہے؟


ستر سالہ عمران خان جب 1996 میں سیاست کے کارزارِ میں داخل ہوا تھا تو اس وقت بلاول محض آٹھ سال کا تھا اور اس عمر میں انسان بمشکل ماں باپ بہن بھائی کے رشتے کے علاؤہ دیگر رشتوں سے آشنائی حاصل کرنا شروع کرتا ہے۔ 2011 میں جب عمران خان کو پاکستان کی پاور پالیٹکس میں پذیرائی ملنا شروع ہوئی تب وہ ساٹھ سال کی حد پھلانگ چکے تھے جبکہ بلاول بائیس تیئیس سالہ پرعزم اور حوصلہ مند نوجوان اپنی تعلیم کو مکمل کرنے اور ملکی سیاسی اسرار و رموز سے واقفیت کے مراحل سے گزر رہے تھے۔

2008 میں صرف بیس سال کی عمر میں انہیں اپنی والدہ کی شھادت کے بعد پیپلز پارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے متفقہ طور پر پارٹی چیئرمین نامزد کیا تو وہ اپنے ملک کی سب سے بڑی نظریاتی عوامی جماعت کے یقیناً اور ملکی تاریخ سمیت شاید دنیا کی تاریخ کے سب سے کم عمر منتخب ہونے والے سربراہ تھے۔ اپنی زندگی کے بیس برس بلاول نے اس ماں کی ممتا کی نگرانی میں تربیت پائی جو بلاشبہ عالم اسلام اور دنیائے سیاست کی بلند پایہ سیاسی دانشوروں میں شمار ہوتی تھیں بلکہ ان کی سیاسی ذہانت اور ملکی و بین الاقوامی سیاست پر گرفت کی دنیا متعرف تھی۔

بلاول بھٹوزرداری زرداری والدہ کی شھادت کے غم کو عزم میں بدلنے کا مصمم ارادہ لے کر کارزارِ سیاست میں داخل ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صرف گیارہ سال کے عرصے میں بلاول بھٹو زرداری ملک کے سیاسی مستقبل کا ایک روشن استعارہ بن کر ابھرے ہیں۔ انہیں سیاسی فہم و فراست ورثے میں ملی ہے سیاسی دانشمندی اور سیاسی برداشت، بہادری دلیری ان کے خون میں شامل ہے۔ بلاول بھٹو زرداری پچھلے ایک دو سالوں سے پاکستان کے ان سیاسی قائدین میں شمار ہونے لگے ہیں جو پاکستان کے روشن و تابناک مستقبل کی نوید ہیں۔

بلاول ابھی محض اکتیس برس کے ہیں اور 25 جولائی 2018 کے انتخابات سے ان کا پارلیمانی کیریئر شروع ہوا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب سے ہی ثابت کردیا کہ پاکستان کا مستقبل یہ حوصلہ مند، اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب و با اخلاق سیاسی قائد ہے نہ کی ایک ستر سالا بدزبان، بداخلاق متکبر شخص جو تبدیلی کا چورن بیچنے کر، ملک کے مقتدر قوتوں کی آشیرباد سے اقتدار میں آیا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے پہلے خطاب میں وزیر اعظم کو نہ صرف اپنا وزیراعظم کہا بلکہ ان کو یاد بھی دلایا کہ آپ نے جن کو زندہ لاشیں اور گدھے کہا تھا آپ ان کے بھی وزیراعظم ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے لہجے میں حکومتی رویوں کے باعث آہستہ آہستہ نہ صرف تلخی آتی گئی بلکہ وہ کھل کر ملکی مسائل، ملکی و بین الاقوامی صورتحال، نیشنل ایکشن پلان سمیت پی ٹی آئی حکومت کی ملک و عوام دشمن پالیسیوں پہ انتہائی سخت اور جارحانہ رویہ بھی اختیار کرتے گئے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان صاحب کو ان کے عوام سے کیے گئے واعدے یاد دلانا شروع کیے تو ان کا انداز للکار میں تبدیل ہونے لگا۔ ان کے انداز سیاست میں برجستگی اور دلیری، عوامی و ملکی مسائل سے دلچسپی میں ان کے نانا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی جھلک نظر آنے لگی۔

خان صاحب کے اقتدار میں آتے ہی نیب نے بھی اپنا انداز احتساب تبدیل کیا اور اپنے احتساب کا رخ صرف پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مخالفین کی جانب کیا تو بلاول کی للکار میں بھی ترشی اور تیزی آگئی، نیب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر محترم آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنان کے خلاف سرگرمی سے فعال ہونے لگی تو بلاول بھٹو نے بھی اپنے گرج دار آواز میں حکومتی اور ان کے حمایتی حلقوں کو واضح پیغام دیا کہ انتقام کی صورت اختیار کرتا ان کا احتساب ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہم پہلے بھی ان جھوٹے بے بنیاد الزامات اور کیسز میں سرخرو ہوکے نکلے ہیں اس بار بھی ذلت و رسوائی ہمارے مخالفین کے ہی حصے میں آنی ہے۔

پیپلز پارٹی چیئرمین نے اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے خطرے کو بھانپتے ہوئے نیازی راج اور ان کے حواریوں کو پیغام دیا کہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے خلاف وہ اور ان کی جماعت سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے نیازی صاحب کی سندھ سے انتہائی متعصبانہ پالیسیوں کی نہ صرف شدید ترین مخالفت کی بلکہ انہوں نے اسے خان صاحب کی سندھ اور سندھ کی عوام سے دشمنی قرار دیا۔ کچھ عرصہ پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقل ہونے والے اداروں جناح پوسٹ گریجویٹ، این آئی سی وی ڈی کراچی اور این آئی سی ایچ کا کنٹرول واپس وفاقی حکومت کے حولے کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا جو کہ اٹھارویں ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی تھی اور آئین کے آرٹیکل 6 کی وائلیشن، ان کے اس قدام کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نہ صرف پارلیمنٹ کے فلور پہ کھڑے ہوکے شدید مذمت کی بلکہ اس اقدام کو آئین کی اٹھارویں ترمیم کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مزاحمت کا واشگاف اعلان بھی کیا۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان پر من عن عمل کرنے، کالعدم تنظیموں سے روابط پر حکومتی وزراء اور پالیسیز کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے تین وزراء کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے نیازی حکومت کی صفوں میں طوفان برپا کردیا۔ بلاول کی گھن گرج یہیں پہ ختم نہیں ہوئی انہوں نے پی ٹی ایم کے مطالبات پر پارلیمانی کمیٹی بنانے اور ان سے بات کرکے اپنے ناراض ہم وطنوں کو قومی دھارے میں لانے کی تجویز بھی پیش کی ساتھ انہوں نے کالعدم تنظیموں کو فراہم کی جانے والے سہولتوں پہ بھی کڑی تنقید کی جس پر انہیں غداری کی سرٹیفیکیٹ سے نوازنے سمیت انتہائی غلیظ الزامات کا سامنا کرنا پڑا حکومتی توپوں کے رخ بلاول کی جانب مڑ گئے احتساب کے عمل میں یکایک تیزی آ گئی، مگر بی بی شہید کا بہادر بیٹا اور شہید بھٹو کا دلیر نواسہ ابھی تک ڈٹا کھڑا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اپنی پرجوش تقاریر اپنی زیرک سیاسی حکمت عملی سے نہ صرف اپنے ناقدین کو بلکہ ملک کے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں انٹیلیکچوئلز کو بھی یہ کہنے پہ مجبور کردیا کہ بلاول ہی پاکستان کا روشن چہرہ اور تعمیر ترقی اور خوشحالی کا استعارہ ہے۔ نوجوان بلاول محض اکتیس برس میں ملک کے گھاگ ستر پچھتر برس کے بڈھے تجربہ کار سیاستدانوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور با اخلاق سیاسی قائد بن کر ابھرے ہیں۔

دہشتگردی، کالعدم تنظیموں، حکومت کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر انتہائی سخت اور دوٹوک مؤقف نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچادی ہے، بلاول کی للکار نے نیازی حکومت اور ان کے حمایتی حلقوں پہ لرزہ سا طاری کردیا ہے۔ بلاول نے وزیرستان میں پی ٹی ایم کے عوامی دھرنے پہ فائرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں اور بڑے پیمانے پر زخمیوں کے لئے انتہائی دلیرانہ مؤقف دیتے ہوئے اس تاثر کو ہی رد کردیا کہ کوئی منتخب ایم این اے اپنے ملک کی افواج کی چیک پوسٹ پہ حملہ کرسکتا ہے۔

بلاول نے سب سے پہلے اس اہم مسئلے پہ اپنے ردعمل کا اظہار کرکے یہ ثابت کیا کہ وہ ملکی سیاسی حالات پہ نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ حق اور سچ پہ ڈٹ کر کھڑے رہنے کی پیپلز پارٹی کی روایت کو بھی نہیں بھولے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیب اور اس کے چیئرمین کے انتقامی احتساب اور اب چیئرمین نیب کے سیکس اسکینڈل پہ کھل کے اپنے مؤقف کا اظہار کیا جبکہ نیازی سرکار منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیازی حکومت کے دس ماہ میں یہ ثابت کردیا کہ وہ پیدائشی لیڈر ہیں سیاست انہیں ان کے خون میں شامل ہے عوامی درد اور ملکی ترقی اور خوشحالی کے خواب وہ سینے میں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی بار پورے پاکستان کی تمام مرکزی اور ذیلی تنظیمیں تحلیل کرکے تمام سیاسی حلقوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور پھر جس طرح کارکنوں اور عوام کی آراء پہ تمام سینیئر سیاسی ساتھیوں اور پارٹی قیادت سے مشورے کے بعد انہوں نے ملک بھر کا تنظیمی ڈھانچہ مرتب کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج بلاول کا کہا ایک ایک لفظ نیازی حکومت اور ان کے حمایتیوں کے دل پہ تیر کی طرح پیوست ہو جاتا ہے اور ساری نیازی صاحب کی گالم گلوچ برگیڈ اپنی پوری قوت سے ان پہ حملہ آور ہوجاتی ہے کیونکہ بلاول کی للکاررں نے حکومتی ایوانوں، انتقامی احتسابی کارزاروں پہ لرزہ طاری کر دیا ہے اور اب بلاول کی یہ للکار اور سیاسی حملے ملکی سیاسی تاریخ کی سب سے نا اہل اور کرپٹ حکومت کے خاتمے پر ہی تھمیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).