ازدواجی ریپ اور معاشرہ


فی الوقت پاکستانی معاشرہ میں بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کے بعد کہا جاتا ہے کہ اس سب کے پیچھے میڈیا کا حد ہے یہاں ڈرامے اور فلمیں فحش مواد کو فروغ دیتی ہیں پھر ایک الزام جو آج کل زد عام ہے وہ یہ ہے کہ یہ ڈرامے معاشرہ میں ازدواجی ریپ جیسی اصطلاح کو عام کررہے ہیں حتی کہ یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ازدواجی ریپ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کسی شوہر پر ریپ کرنے کا الزام تو بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ملکیت پر اپنا حق جتائے اور اسے کہا جائے تم اپنی ملکیت پر حق نہیں جتا سکتے۔

یہ وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرہ میں ازدواجی ریپ جیسے اصطلاح سے اخذ کی جاتی ہے۔ حتی کے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ازدواجی ریپ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے ہمارے معاشرہ میں سمجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ نکاح دو لوگوں کے درمیان زندگی بھر کا معاہدہ ہے جس میں دو لوگ ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا ایک دوسرے سے عہد کر تے ہیں اگر اس معاہدہ کی روح سے دیکھا جائے تو ایک مرد کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ وہ بیوی کے اخلاقی، اذدواجی، معاشی، معاشرتی تمام قسم کے حقوق کی ادائیگی کرے گا۔

مگر وہ اس نکاح نامے پر دستخط کرنے کے بعد تمام عہد وپیماں بھول جاتا ہے اور بیوی کو اپنا محکوم سمجھنا لگتا ہے جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے تمام حقوق کی ادائیگی بلا چوں چراں کریں۔ ایسے میں اس شخص کو یہ بات یاد دلانے کی اشد ترین ضرورت ہوتی ہے کہ تم نے ایک جیتی جاگتے وجود سے شادی کی ہے جس کے جذبات ہیں جو دیگر وجوہات کی بنا پر تھکاوٹ کا شکار ہوسکتی ہے اور ایسے میں اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ شوہر اس سے پیار بھری باتیں کریں اس کا دل بہلائے اسے اپنے ساتھ کا یقین دلائے نہ کہ اسے صرف ہمبستری کے لیے لائے جانے والی کوئی شے سمجھے اور اس کی رضا اور مرضی جانے بغیر صرف اپنی غرض پوری کرکے اسے جھٹلا دے۔

اگر ہم ان حقائق کی روشنی میں دیکھے تو پھر ہمیں یقینا ازدواجی ریپ جیسی اصطلاح غلط محسوس نہیں ہوگی جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسی کے ذریعے عورتوں کو ورغلایا جارہا ہے انھیں ان کے حقوق کی جنگ لڑنے کے ہتھکنڈے سکھائے جارہے ہیں وہ بیچاریاں تو اپنے حقوق کی جنگ لڑ ہی نہیں رہی وہ تو صرف اپنے انسان ہونے کا حق مانگ رہی ہے؟ اب کیا وہ بھی نہیں مانگے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).