محسنِ بلوچستان و انقلابی بلوچ نواب


وہ ادیب تھا شاعر تھا صحافی تھا سیاستدان تھا دانشور تھا اور بہت بڑے قبیلے کا نواب بھی تھا۔ اور بہت کم عمر اور کم سن تھا۔ 19 سال کی عمر کے حامل ایک جوانسال شہزادے اور نوابزادے میں اتنی ڈھیر ساری خوبیوں کا یک جا ہونا ایک معجزہ ہی تو ہے۔ ایسا نوجوان جس کو اپنی بلوچ قوم اور اپنی سرزمین بلوچستان سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ اس کے دل میں اپنی قوم کی محرومیوں اور اپنی سرزمین کی پسماندگی کا ناقابل بیان حد تک دکھ اور درد تھا۔ شاید ایسی ہی بینظیر اور بے مثال شخصیات کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

بلوچ معاشرے میں کسی کی بڑائی کے بارے میں ایک مثال دے کر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کون سا نواب قیصر خان کا بیٹا ہے یا کون سا نواب قیصر خان کا پوتا ہے۔ تو یہ نوجوان اسی نواب قیصر خان مگسی کا بیٹا نواب یوسف علی المعروف یوسف عزیز مگسی تھا 0

نواب یوسف علی مگسی 1908 میں نواب قیصر خان مگسی کے گھر میں مگسی قبیلے کے دارالحکومت جھل مگسی میں پیدا ہوا۔ یہ تین بھائی تھے جو با الترتیب گل محمد خان یوسف علی خان اور محبوب علی خان۔ گل محمد اور یوسف علی ادیب اور شاعر بھی تھے گل محمد نے زیب اور یوسف علی نے عزیز تخلص اختیار کیا اس لئے ایک گل محمد زیب اور دوسرا یوسف عزیز کے نام سے برصغیر اور وسط ایشیا میں مشہور ہوئے۔ نواب گل محمد زیب کا شمار فارسی کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے اردو بلوچی اور سندھی سمیت 9 زبانوں میں شاعری کی۔ ان دونوں بھائیوں کے بارے میں اردو کے خدائے سخن کا خطاب پانے والے عظیم شاعر میر تقی میر کی زبانی یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

نواب یوسف عزیز مگسی پہلے ترقی پسند بلوچ نواب اور اولین بلوچ قائد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کے نواب اور سردار اپنی رعایہ اور قبیلے کو اپنے تابع اور محکوم و محروم رکھنے کی سوچ کے حامل ہوں ایسے معاشرے میں ایک نوجوان روایت شکن نواب نے اس طرح کی تمام تر فرسودہ رسم و رواج اور روایات سے بغاوت کر کے اپنے قبیلے اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور اور اپنی سرزمین بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا جذبہ لے کر عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ علامہ اقبال مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسی نابغائے روزگار شخصیات بھی اس نوجوان کی ترقی پسند اور انقلابی سوچ سے متاثر تھیں۔ ظفر علی خان نے ان کے بارے میں کہا کہ

تم کو خفی عزیز ہے ہم کو جلی عزیز

عارض کا گل تمہیں ہمیں دل کی کلی عزیز

لفظ بلوچ مہروفا کا کلام ہے

معنی ہیں اس کلام کے یوسف علی عزیز

نواب یوسف عزیز نے بلوچستان پر انگریز حکمرانوں کے تسلط اور ریاست قلات کے وزیر اعظم سر شمس شاہ کے ظلم اور جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے ایک طرف تحریک آزادی شروع کر دی تو دوسری جانب سرسید احمد خان کی طرح اپنے قبیلے کو علم کے زیورات سے آراستہ کرنے کے لئے جھل مگسی میں جامعہ یوسفیہ کے نام سے تعلیمی درسگاہ قائم کر کے اپنے قبیلے کی بچیوں اور بچوں پر تعلیم کا حصول لازمی قرار دیا۔

انہوں نے تعلیمی ماہرین اور عالم و فاضل علما کو جھل مگسی میں تعینات کر کے انگریزی اردو فارسی اور عربی تعلیم کے درس و تدریس کا آغاز کر دیا۔ تمام اساتذہ اور علما کو تنخواہیں اپنی جیب سے اور تمام طلبہ اور طالبات کو کتابیں یونیفارم و دیگر تعلیمی اور سہولیات کا بھی اپنی جیب سے انتظام کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی ریاست جھل مگسی کی زرعی آمدن کا دسواں حصہ تعلیمی اخراجات کے لئے وقف کر دیا۔ جبکہ طبی سہولیات کی غرض سے مفت شفاخانہ بھی قائم کیا اور زرعی پیداوار کے اضافہ کی غرض سے کھیر تھر کینال قائم کر کے بلوچستان کا پہلا نہری نظام بھی قائم کر دیا۔

نواب یوسف عزیز مگسی نے بلوچ قوم میں شعور و آگاہی پیدا کرنے اور استحصالی نظام کے خلاف قلمی جہاد کی غرض سے کراچی سے البلوچ، ترجمان بلوچ، اتحاد بلوچاں اور بلوچستان جدید کے نام سے اخبارات و جرائد کا اجرا کیا۔ جبکہ ریاست قلات کے وزیر اعظم شمس شاہ کے جبر و استبداد اور مظالم کے خلاف شمس گردی کے نام سے ایک کتابچہ بھی تحریر کیا جس کی پاداش میں ان کو قید و بند اور جرمانہ کا سامنا کرنا پڑا اور بعد ازاں جلاوطن ہو کر لندن بھی جانا پڑا۔ وہ بہ یک وقت ایک بلوچ نواب اور سردار ہوتے ہوئے ادیب شاعر مصنف کالم نگار صحافی اصلاح پسند و اصلاحات پسند اور انقلابی و ترقی پسند سیاستدان بھی تھے تو ایک سماجی رہنما بھی۔ کھیر تھر نہر مفت شفاخانہ اور جامعہ یوسفیہ کا قیام ان کے واضح ثبوت ہیں۔

نواب یوسف عزیز نے قلات نیشنل پارٹی یا انجمن اتحاد بلوچاں کے نام سے اپنے ساتھیوں میر عبدالعزیز کرد میر غوث بخش بزنجو سردار عطا اللّٰہ مینگل اور میر گل خان نصیر و دیگر کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کی پہلی سیاسی تنظیم کا قیام عمل میں لایا۔ ان کی سوچ بہت وسیع اور مثبت تھی۔ ان کے بارے میں ماہر تعلیم اور قبائلی ہنما میر عبدالنبی خان مگسی نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا جس کے مطابق ایک بار نواب یوسف عزیز نے اپنے علاقے کی خواتین کو تالاب وغیرہ سے پینے کے لئے پانی کے بڑے مٹکے بھرتے ہوئے دیکھا کہ اس سے خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس پر انہوں نے اپنے علاقے میں یہ حکم جاری کر دیا کہ آئندہ جھل مگسی کی ریاست میں پانی کے بڑے مٹکوں پر سختی کے ساتھ پابندی ہوگی اور چھوٹے مٹکے دکانوں پر فروخت کیے جائیں اور یہی استعمال کیے جائیں تا کہ خواتین کو بڑے مٹکوں کی وجہ سے ملنے والی تکالیف سے نجات مل سکے اور پھر اس حکم پر مکمل طور پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے روایتی پگڑی اور نوجوانوں میں شلوار میں ضرورت سے زیادہ کپڑے کے استعمال میں بھی کمی کرنے کا مشورہ دیا۔ جس کا مقصد غیرضروری کپڑے کے استعمال سے بچنے والی رقم زندگی کی دیگر ضروریات پر خرچ کرنا تھا۔ یوسف عزیز کا یہ بھی ارادہ اور وژن تھا کہ وہ لندن میں ایک ہوسٹل قائم کریں گے جس میں بلوچستان سے آنے والے طلبہ اور طالبات مفت قیام کر کے اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ لیکن افسوس کہ 31 مئی 1935 کو رات کے وقت کوئٹہ میں آنے والے ہولناک زلزلے میں موت کے اجل کا شکار ہو گئے۔ جس سے بلوچ قوم اور بلوچستان کی سرزمین کے عظیم انقلابی فرزند اور رہنما سے محروم ہونا پڑا۔ وہ اپنی قوم اور سرزمین کے عشق میں شروع کی جانے والی جدوجہد کے باعث شادی بھی نہ کر سکے تھے۔ 27 سال کی عمر میں وہ بلوچستان کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔ آخر میں یوسف عزیز کے چند اشعار قارئین کی نذر

میں اعلان کرتا ہوں میں پھر اقرار کرتا ہوں

میں اپنی بات پر پھر یوسفی اصرار کرتا ہوں

اے اہلِ وطن جس دن تم مجھے بلاٶ گے

مجھے سرباز دیکھوگے مجھے جانباز پاٶ گے

کہاں ہے قوت حق کہاں ہے مروت خلق

سنا کے تھک گئے ہم تم کو حال زار اپنا

عزیز موت کا ایک دن معین ہے

کیوں نہ کرائیں مجاہدوں میں شمار اپنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).