حرف حق کی صلیب اٹھاے عیسیٰ آئے


جسٹس (ر) منیر کے بعد سے تمام قوم ایک بات پر متفق تھی کہ کم از کم اس جہاں میں اس ملک میں طاقتور کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں لا یا جاسکتا اور ہمارے اعلیٰ قانونی ادارے اور ان میں بیٹھے بڑے بڑے نام اس طرح کی کوئی حرکت کر کے خود کو مصیبت میں نہیں ڈال سکتے اور عوام بھی ذہنی سکون میں تھے کہ امید ہی نہیں رکھنی۔ کیا کچھ نہ ہوا؟ ملک ٹوٹا۔ آئین ٹوٹے۔ منتخب عوامی نمائندے پھندوں پر جھول گئے۔ عوام کو پتا تھا کہ اوج پہ ہے طالعِ رقیب اس لئے آج کی جدائی پر غمزدہ نہیں ہونا، کل باہم ہو لیں گے۔ کسی اہل ہوس منصف سے منصفی نہیں چاہنی ہے۔ بس رہے نام اللہ کا۔ اور جو ملے اس پر صبر کر لینا ہے۔ اور آئین سے لے کر آئینی وزیراعظم تک کی لاش کو جیسے بھی دفن کردیا جاے صرف اس پر مزار بنا کر مجاور بن کر بیٹھنا ہے۔

لیکن برا ہوا جسٹس چوہدری کا اس نے قوم کو عجیب رستہ پر ڈال دیا۔ وہ بھی چپ چاپ چلا جاتا۔ قوم کو بھنگ پلا دی گئی تھی۔ وہ سوئی تھی، سوئی ہی رہتی۔ دعویٰ کیا گیاکہ قائد اعظم وکیل تھے ملک کو واحد ایماندار قیادت عطا کی اور کامیابی بھی۔ وکیل نے پاکستان بنایا تھا اب وکلاء ہی اس کواندھیرے رستوں سے روشنی کی طرف لائیں گے۔ لوہے کو لوہا ہی کاٹے گا، کالی رات کا اختتام کالے جھنڈوں کو لہرا کر ہی کیا جاے گا۔ ہمیں کالے رنگ سے خصوصی رغبت بھی ہے۔

جب چوہدری کالا کوٹ پہنے کالی سیاہی سے لکھا ہوا سفید کاغذہاتھ میں رول بنا کر پکڑے ہوے تین دن کی اندھیری قبر نما کوٹھی سے پیدل چلتا ہوا نکلا تو پوری قوم لائیو کیمروں میں اس کو دل تھام کر دیکھ رہی تھی۔ کھینچا تانی ہوئی، کالا کوٹ پھٹ کر جھنڈابن گیا اور قوم جاگ اٹھیں۔ قوم باہر نکل آئی۔

اس کے بعد جو ہوا عومی دباؤ پر ہوتا چلا گیا۔ آمر کی لگائی ہوئی پہلے دفاعی لکیر اس وقت پار ہوئی جب سپریم جوڈیشل کونسل سے کیس سپریم کورٹ میں آگیا۔ بند کمروں کی بجاے کھلا دربار لگا۔ جسٹس چوہدری بحال ہوا۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی آگئی اور اس کے ساتھ والے بھی گئے۔ جو چہیتے اس رگڑے میں آئے ان کی فوراً پرنٹنگ پریس کے قیمتی پیپروں سے اشک شوئی کی گئی۔ لیکن یہ حد بھی پار ہوئی۔ آ مر کو

آزادانہ الیکشن کرواناپڑے۔ ایک ہی اسمبلی سے دوبار جیتنے والے کو استعفیٰ دینا پڑا۔

مجبور جمہوریت بحال ہوئی، اس پابندی کے ساتھ کہ چوہدری اور حواریوں کو نہیں بخشا جاے گا۔ ہمارے سیاست دان ہمیں پتا ہے کہ اللہ کے ولی ہیں جو مل جاے اسے بہت سمجھتے ہوے شکر گذار رہتے ہیں، زیادہ کی ہوس نہیں کرتے۔ جو نہ ملے اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور جو حد لگا دی جاے اس کوپھلانگنا تو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ ہاں دل ہی دل میں اللہ سے مانگتے رہتے ہیں۔ وہ اللہ کا کوئی دوسراولی بھی جانتا ہوتا ہے۔ وہ مجبور کرتا ہے بھائی کو یہ اختیار بھی مل جاے یا شاید اس کی اس خواہش کے جاگنے سے دینے والے اس سے ناراض ہو کرکسی اور کو باری دے دیں۔ اور اللہ کی رحمت دوسروں پر بھی برس جاے۔ اس کشمکش میں چوہدری جی کا بھی بھلا ہو گیا۔

بہت وقت ملا۔ کئی سال۔ عدلیہ کی طرف اب کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کالا کوٹ ہر طرف لہرا رہا تھا۔ قانوں کالے، سڑکیں کالی، دفاترکالے، عدالتیں کالی، کرتوت کالے اور قوم کی قسمت بھی سیاہ کالی۔ عدلیہ نے دل کھول کر اپنے آپ کو سدھارنے کے دعوے کیے۔ جسٹس ڈوگر کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ خط لکھنے تک کی چھوٹی سے چھوٹی کو تاہی بھی برداشت نہ کی گئی۔ فاروقی عدل اور جہانگیری انصاف کی آہنی کالی زنجیریں معلق کر دی گئیں۔ ایک وزیر اعظم رستہ میں آیا تو بھی دل ڈرا نہ روح خوفزدہ ہوئی۔ لیکن اللہ کا خوف مد نظر رکھتے ہوے اور محسن کش کی تہمت سے بچنے کے لئے اس کو نام نہاد سی تا برخواستگی عدالت سزا دی۔ وہ تو اللہ ہی بھلا کرے اس آئین کا اس میں کیسی کیسی شقیں ڈال دی گئی ہیں کہ اس سے وہ پانچ سال کے لئے نا اہل ہو گیا۔

قوم کا اٖفتخارعمر پوری کر کے ریٹائر ہوا تو عدالتی ہتھوڑا ایمپائر کے ساتھ مل کر الیکشن میں دھاندلی ڈھونڈھنے چل نکلا۔ اللہ کا ایک ولی غلط وقت پر بول پڑا۔ پارٹی کی صدارت اور اپنی ساری عمر کی ریاضت قربان کر کے ملامتی صوفی کی روش پر چل پڑا اور سارا گند اپنے اور اعلیٰ عدلیہ کے پاک سروں پر انڈیل دیا۔

وقت گزر گیا۔

اب عدلیہ نے ملک میں ہر برائی کی جڑ ناجائز دولت کا علاج کرنے کا سوچا۔

بے ایمانی، رشوت، سودوں میں کمیشن یہ اب کسی صورت قبول نہ تھا۔ نچلی اور اعلیٰ عدالتوں کو ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی یہ دولت بہت خراب کر رہی تھی۔ نہ لوگوں کے پاس کالا دھن ہوگا نہ وہ اس کو عدالتوں کی جھولی میں پھینک کر غلط فیصلے لیں گے۔ اس لئے اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے پہلے اللہ کے ولیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ جنہیں لوگ اللہ کا ولی کہتے ہیں یہ تو ٹھیک ہوں۔ ہمارے جج تو بیچارے معصوم ہیں نہ ان کو کوئی غلط رستہ پر لگاے گا، نہ فیصلے غلط ہوں گے۔ ایک دو ولیوں کو جیل بھیج دو۔ دو تین کو عدالتوں کے چکر لگواو، باقی بلے کی طرح سیدھے ہو جائیں گے۔

اب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔ ہر طرف انصاف ہی انصاف ہے۔ حکومت بھی اپنی تحریک انصاف کی ہی ہے۔ ایک دوہم میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہیں سیدھا کر کے دوسروں کے لئے مثال بنانا پڑے گا۔ لوہا گرم ہے پوری قوم کو کالی اندھیرنگری میں ناجائز ذرائع سے کمائی خفیہ دولت کی سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے، راج بھی چوپٹ ہو چکا ہے۔ موقع ہے کہ اس سیلاب میں اپنے بھی دو چار ساتھی بہا دیے جائیں تاکہ یہ الزام بھی نہ آے کہ صرف سیاستدان ہی کیوں۔ ا ور اپنے باقی ساتھی بھی سیدھے ہو جائیں۔ اب یہ پھندا کالے جھنڈے کا نہیں کالی شیروانی کا بنایا گیا ہے۔ ا ور کہا جاتا ہے کہ صدیوں پہلے لوگوں کو موقع دیا گیا کہ عیسیٰ یا بدنام زمانہ قاتل ڈاکو، ایک کو چھوڑا جا سکتا ہے۔ دوسرے کو سولی۔ بولوکس کوسولی پر چڑھائیں؟ پوری قوم کا جواب تھا۔ عیسیٰ۔

اے عیسیٰ یاد رکھناآج تمہیں پکڑنے بتوں کے پجاری نہیں آرہے، اب تم ان فسوں گروں کی چشم کے زیر نشانہ ہو جو تمہارے ہی خدا کو مانتے ہیں۔ آج کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ اب سوچ سمجھ کر دعویٰ اعجاز کرنا۔

آج بَل رَّفَعَہ ُاللہ ُاِلیہ ِ نہیں ہوگا۔ آج یہ صلیب تمہارے ہی کندھے پہ ہوگی۔ اب اٹھا اپنے حرف حق کی صلیب اپنے کندھے پر اور بتا کیوں ہمارے حق پہ سوال اٹھایا؟

اورقوم بھی اس کے بعد دوبارہ بھنگ پی کر سو جاے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).