انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار


خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔ سرونسٹن چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا کہ اگر برطانیہ کے لوگوں کو عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ آج جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں انصاف کا نظام انتہائی مہنگا اور پیچیدہ ہے تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا شخص کس قسم کی بات کررہا ہے۔ اگر آپ اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود ملک کے نظام انصاف سے ہی آشنا نہ تھے تو آپ حکمرانی کا حق کس طرح رکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے عدالتی فیصلے ہمیشہ متنازع رہے ہیں۔ یہاں جسٹس منیر جیسے جج بھی تھے جنہوں نے آئین شکنی کو جائز قرار دے کر ایک نئی ریت ڈالی، جس کی وجہ سے ہم برسوں دور آمریت میں زندہ رہے۔ ہمار ا نہ کوئی دستور تھا اور نہ ہی کوئی آئین۔ شخصی آمریت نے اس ملک کو جتنا نقصان پہنچایا اس کی تلافی ناممکن ہے اور اس میں ہماری عدلیہ بھی برابر کی ذمے دار ہے۔ ہماری عدالتیں تمام فوجی حکمرانوں کے حق حکمرانی کو تسلیم کرتی رہیں۔ ہمارے ججز پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے رہے۔ ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں توعدلیہ کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اچھی مثالیں موجود نہیں ہیں سوا ئے چند ایک کے۔ نظام جیسا بھی تھا، ہماری عدالتیں اس کے تحفظ میں بھی ناکام رہیں۔

دنیا بھر میں جمہوریت اور اس کے تحت چلنے والے عدالتی نظام اس اصول پر قائم ہوتے ہیں کہ حقیقی آزادی کے لیے قانون کی حکمرانی ضروری ہے اور ساتھ ہی ایک ایسے عدالتی سسٹم کی جس کی بنیاد کسی ایک شہری کے حقوق کا تحفظ دوسرے شہری کے حقوق کے انکار پر استوار نہ ہو۔ اس بلیغ اشارے میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ کسی معاشرے میں سچ کا چلن نہ ہو تو مساوات، انصاف، امن، محبت و یگانگت کی قدریں ناپید ہو جاتی ہیں اور ایسا نظام حکمرانی انجام کار تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔

ہمارے نظام انصاف کی سب سے بڑی بدقسمتی غیر سنجیدہ درخواستیں دائر ہونا ہیں، عدالتوں میں مقدمات کے اعداد و شمار کے مطابق ماتحت عدلیہ میں ایک جج کے پاس 6 گھنٹوں میں 160 مقدمات ہوتے ہیں جب کہ ہائیکورٹ میں ایک جج نے 5 گھنٹوں میں 40 مقدمات کو سننا ہوتا ہے۔ اس جج کو ایک کیس کے لیے دو منٹ 15 سیکنڈ ہی ملتے ہیں۔ دوسری وجہ مقدمات کے تاخیر سے فیصلوں کی شکایات ہیں، اس کی اہم وجہ مقدمات کو جان بوجھ کر طول دینا ہے، دنیا میں مقدمات کی تاخیر کا سبب بننے والوں پر جرمانہ عائد ہوتا ہے اور یہاں وکلا کی روزی روٹی ہی تاخیر پر چلتی ہے۔

حال یہ ہے کہ مدتیں گزر گئیں لیکن قانون سازی نہیں کی گئی، اب وقت آگیا ہے قانون میں اصلاحات لائی جائیں۔ 21 صدی میں 19 ویں صدی کا قانون چلا رہے ہیں۔ درد کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جوڈیشل سسٹم پر صدیوں کا بوجھ ہے ایک سول جج کے پاس روزانہ 160 سے زائد مقدمات آتے ہیں۔ جدید دور کے تقاضوں سے صرف نظر کرکے آپ زمانے اور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ عدالتی نظام میں بروقت اصلاحات سے گریز کرکے عدلیہ پر اتنا بوجھ ڈال دیا گیا جو عدلیہ کی برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔

19 صدی کے قوانین اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہو سکتے۔ جب ایک جج کے پاس ایک دن میں 160 مقدمات آئیں گے تو انسانی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے مہینوں اور برسوں میں ان کے انبار لگ جانا فطری بات ہے۔ عدالتی سسٹم اسی صورت درست سمت اختیار کر سکتا ہے کہ مقدمات کم ترین سطح پر آ جائیں یا مقدمات کے تناسب سے ججز کی تعداد بڑھا دی جائے۔ ماضی میں عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین عدالتی نظام میں بہتری کے حوالے سے کوآرڈی نیشن کا فقدان رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں سپریم کورٹ کے چیف کے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کے تقاضے پر حکومت کے ساتھ کشیدگی اس سطح پر پہنچی کہ معاملہ عدالت پر حملے تک چلا گیا۔

ان حقائق کے پیش نظر قانونی اقدار کی نشاۃ ثانیہ کو ایک جوڈیشل پیکیج کی ضرورت ہے۔ جس میں قانونی اصلاحات اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون سازی، ایسے قوانین جو موجودہ دور سے مطابقت نہیں رکھتے ختم کیا جائے، ججزکی خالی اسامیوں پر جلد تعیناتیاں ہونی چاہئیں جب کہ ججوں کی تربیت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، تربیت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ناگزیر ہے۔ مقدمات کی بھرمار ثالثی کے ذریعے کم ہوسکتی ہے، ہمارے ہاں عدالت سے باہر مقدمات کے تصفیہ (اے ڈی آر) پر توجہ نہیں دی گئی، پنجاب میں اب اس پرکام ہو رہا ہے، اے ڈی آر سسٹم سے بہتری آسکتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عوام جہاں انصاف کے حصول میں مشکلات اور لاکھوں کی تعداد میں زیر التوا مقدمات کے فیصلوں کے انتظار کی کربناک اذیتوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ در حقیقت انصاف، جمہوری ثمرات، بنیادی انسانی حقوق اور سماجی و معاشی عدل کے فقدان کا رونا روتے ہیں۔ فوری انصاف کی فراہمی باراور بنچ کی ذمے داری ہے، تاخیر سے انصاف کی فراہمی میں صرف عدلیہ ذمے دار نہیں بارکو بھی بنچ سے تعاون کرنا ہوگا۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya