میں ہرگز غیر سیاسی نہیں ہوں


ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے اور تیسرے بندے کو یہ کہتے ہوے سنا جاتا ہے کہ وہ غیر سیاسی ہے۔ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور مجھے آج تک یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ عام و خاص بندہ یہی سمجھتا ہے کہ سیاسی لوگ وہ ہیں جو منتخب نمائندگان ہوتے ہیں، جو ملک کہ بالا ایوانوں میں بیھٹے ہوتے ہیں اوران ہی کا کام ہے سیاست کرنا۔ یہ بات بالکل واجب ہے کہ ہم ان لوگوں کو چؐن کر ان اداروں تک پہنچاتے ہیں اس لئے وہ سیاسی نمائندے ضرور ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں باقی سب غیر سیاسی ہوگئے ہیں۔

کسی بھی ریاستی ڈھانچے میں رہنے والے افراد کا اورریاست کا آپس میں باہمی تعلق ہوتا ہے۔ اگرہم ریاست سے لاتعلق نہیں تو پھر سیاست سے کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ ہماری بنیادی ضروریات میں پانی، خوراک، صحت، تعلیم اورسوشل سیورٹی شامل ہیں اورریاست ذمیدار ہے کہ ہمیں یہ سب مہیا کریے تو پھر ان میں سے کوئی بھی امورغیرسیاسی نہیں ہے۔ ایک نومولود بچہ بھی غیر سیاسی نہیں ہے کیوں کہ اؐسے بھی ان تمام لوازمات کی ضرورت ہے جو دوسروں کو ہے تو پھرایک فرد کیسے غیر سیاسی ہوا۔

میں نے طلبہ، کاروبار سے منسلک اور نوکری پیشہ افراد کو بڑے فخر سے کہتے ہوے سنا ہے کہ ہمارا کیا جائے سیاست میں۔ اوریہی وجہ ہے کہ اس ملک کی تمام یونیورسٹیز کو سیاست سے پاک کردیا گیا لیکن انتہا پسندی کو تعلعمی اداروں میں بڑے شوق سے فروغ دیاگیا۔ جب ٹریڈ یونین اورطلبہ سیاست جیسے اہم ادارے ممنوع ہوجائیں تو پھر معاشرے میں ایسی ہی آوازیں گونجیں گی۔

نتیجہ، اس ملک کے لوگوں کو یہ تک نہیں پتا کہ وہ کتنا اور کن کن اشیاء پر پوشیدہ ٹیکسس ادا کرتے ہیں۔ مجھے پہلی بار آمریکا جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک شاپنگ مال میں خریداری کررہی تھی۔ میں نے بڑے مزے سی پرائیس ٹیگ دیکھ کر چیزیں لیں۔ جب کیش کاٰؤنٹر پر بیٹھی ہوئی عورت نے مجھے بتایا کہ اس شاپنگ کے مد میں آپ کو اتنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا تو میں منہ پھاڑ کر اس کو دیکھتی رہی کہ پاگل میں ہوں یا یہ خاتون جو بتا رہی کہ ایک فرد روزانہ کتنا ٹیکس دیتا ہے۔ مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہم کس لاتعقی میں زندہ ہیں۔

آخر یہ معمہ حل کیسے ہوگا کہ اس ملک میں سوائے ایک خاص گروہ کے باقی سب غیر سیاسی ہو کیسے گئے۔ جس دن سے اس ریاست کا قیام ہوا اس دن سے عام لوگوں کو ریاست کے معاملات سے جان بوجھ کر دور رکھا گیا۔ اس کی شروعات یہاں سے ہوئی کہ ریاست کے معاملات سیاسی ہیں اس لئے عام بندہ اس پر سوال نہیں اؐٹھا سکتا۔ یہاں سے ہمارے معاشرے میں سے سوال کا جنازہ اؐٹھ گیا۔ اور اس طرح سے ہمارے معاشرے کو بھی غیر سیاسی لبادہ پہنادیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تحاریر اور شاعری بھی غیر سیاسی کردئے گئے۔ کچھ تحاریر اور شاعری نے سیاسی بننے کی کوشش کی تو ان کو مقتل میں منتقل کیا گیا۔ کیونکہ ہیاں پر پہلے سے طے تھا کہ عوام کو غیر سیاسی رکھنا ہے۔

پھر وہ ریاست جو کہ ایک ماں کا درجہ رکھتی تھی اس کا اپنے بچوں سے تعلق براہ راست سے بلاواسطہ ہوگیا۔ ریاست جو سب کی ہونی تھی جیسے ماں کی آنکھیں سب بچوں کے لئے یکساں ہوتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس ماں نے کچھ بچوں کو آنکھ کا تارا بنادیا، کچھ تو بچارے کماؤ پتر بن گئے اور جو کمزور تھے جو کسی کی خاطر میں ہی نہیں آتے تھے ان کو اسی کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ اور اس طرح سے تعصبی نظام کا جنم ہوا۔ ریاست اور شہری میں ایک فاصلہ طے ہوگیا۔

پھر ایک اور کام ہوا کہ ریاست کا بھی مذہب بنادیا گیا جب کے مذہب تو لوگوں کا ہونا چاہے تھا اور ہے بھی مگر یہاں تو ریاست مذہبی بنادی گئی۔ ریاست میں بسنے والے لوگ مختلف مذاہب کے پیروکار تھے اس لئے بڑی آسانی سے قومی تشخص سے لوگوں کو نکال کرمذہبی خانوں میں بانٹ دیا گیا۔ جس کا خانہ بڑا وہ اکثریت میں جس کا خانہ چھوٹا وہ اقلیت میں شمار کیے جانے لگے۔ جو بڑا ہے اؐس کو حق مل گیا کہ اپنے سے چھوٹے پر دبا کے ظلم کرے۔

نئی نسل کو اپنی حقیقی تاریخ سے بے خبر رکھا گیا۔ انہیں عربوں سے لے کر ترخانوں تک کی تواریخ پڑھا دی گئی۔ ان کے لوٹ مار کے قصے بھی سنا دیے گئے کہ سومنات کی مندر اور سندھ کے مندروں میں کون سی خدمتیں انجام دی جا رہی تھیں۔ لیکن ہمیں قطعَا یہ یاد نہیں کہ بھگت سنگھ اور ہیموں کالانی اس دھرتی کو بچاتے ہوئے اپنے جانیں تک قربان کر گئے، ان کے لئے نصاب میں کوئی جگہ نہیں بچی۔ ایک کالج کے طالب علم سے میں نے پوچھا کہ باچا کون تھے اس نے کہا میں ان کو نہیں جانتا۔

پھر میں نے پوچھا چلو یہ بتاؤ جی ایم سید کون تھے؟ کہا ہاں میں اؐنہیں جانتا ہوں۔ خوشی سی میں مہک اؐٹھی اور کہا کون تھا جی ایم سید؟ لڑکے نے اپنی بات پر زور دے کر کہا بہت بڑا غدار تھا ! مجھے فیض صاحب یاد آگئے۔ ”کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسرہوگی، سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی“۔ میں نے سوچا واہ یہ ہی غیر سیاسی نسل ہمیں چاہیے تھی جس کی بیناد پر ہم گلوبل ورلڈ میں اس فکری سوچ کے ساتھ دنیا بھر کی طاقتوں کا مقابلہ کریں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).