قصہ چہار درویش اور تھری اِیڈیٹس


کار، کوٹھی، بنگلہ اور بنک بیلنس انسان کا اثاثہ ہوتے ہوں گے لیکن پرخلوص دوست انسان کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ مدینتہ الاولیا ملتان میرا محبوب شہر ہے۔ یہ شہر میری جنم بھومی تو نہیں لیکن اس نے مجھے بہت کچھ عطا کیا ہے۔ صحافت کا آغاز میں نے یہیں سے کیا، استادوں کے استاد اصغر زیدی اور محسن نواز خان کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا، شعور و آگہی کا جہاں اسی شہر میں مجھ پر القا ہونا شروع ہوا۔ دوستوں کی فہرست لکھنے بیٹھوں تو یقیناکالم کم پڑجائے گا۔

جب بھی ملتان وارد ہوتا ہوں تو پرانے مہربان اور کچھ نئے دوست اپنی محبت اور خلوص کی آغوش میں لے لیتے ہیں۔ عالمی سیاسیات پر نظر رکھنے والے ڈاکٹر مقرب اکبر، اردواد ب کو اوڑھنا پچھونا بنانے والے ڈاکٹر سجاد نعیم، پروفیسر قاضی اکبر، افسردہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا ہنر رکھنے والے پروفیسر حمید اے فائق، پراسرار مگر بیدار مغز، وسیع مطالعے اور سوشلسٹ نظریات کے گرویدہ وکیل عرفان حیدر شمسی، تاریخ کا گہرا ادراک رکھنے والے ڈاکٹرمحمد شفیق، قا بل اساتذہ میں سے ایک ڈاکٹر شاہد بخاری، بے باک لہجے کے صحافی اور شاعر رضی الدین رضی، شیریں لہجے والے کتاب دوست کالم نگار شاکر حسین شاکر، کھردرے لیکن کھرے لہجے کے محمد امین زاہد، شیراز درانی اورفرحان اکرم مرزاکے علاوہ کتنے ہی ایسے دوست ہیں جن کا نام یہاں نہ لکھ پاؤں تو ان سے دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں۔

چودھری آصف اور سوہنے منڈے دانش کا نام میں کیسے بھول سکتا ہوں جن کی محبتوں کا میں آج بھی مقروض ہوں۔ کنور محمد طارق ملتان کے اولین دوستوں میں سے ایک ہیں، مشکل میں ہرکسی کے کام آنے والے۔ لیکن جب سے پیراگوئے کے اعزازی قونصلر بنے ہیں بہت مصروف ہو گئے ہیں۔ مہربانوں کی اس فہرست میں ڈاکٹر خضر عباس اور سرائیکی محقق حافظ فیاض نیا اضافہ ہیں۔ ملک روشن بوسن، رضوان گیلانی اور سنان احسان بودلہ کو بجا طورپر مجھ سے یہ شکوہ ہے کہ میں انہیں وقت نہیں دے پاتا۔ اس کوتاہی پر میں ان سے معذرت خواہ ہوں، خواہش ہے ان کا شکوہ دور کر پاؤں۔ ایک پرانی کلاس فیلو چودھرائن اس بات پر خفا ہے کہ اس کو مکڈونلڈ یا کے ایف سی پر دعوت نہیں کھلائی، رہے خفا، اپنا کیا جاتا ہے؟ ہم نے تو اسے کنجوسوں کی نانی کا خطاب دیا ہے۔

لیکن سردست مجھے خاص طور پر ذکر کرنا ہے چار کے ٹولے کا۔ چار کا یہ ٹولہ بہا الدین ذکریا یونیورسٹی میں ہی ایک دوسرے سے ملا اور اس جامعہ سے ہماری بہت خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔

چاروں میں سے ایک غیر حاضر ہو تو یہ ٹولہ THREE IDIOTS کا درجہ پاتا ہے۔ چار کے اس ٹولے کا نام میں نے چہار درویش رکھا ہے۔ اس مجلس چہار درویش میں خاکسار کے علاوہ ولایت حسین کالج میں ولایت علم بانٹنے والا ملک عدنان ماڑھا جسے ہم پیار سے پروفیسر کہتے ہیں، حکومتی نظم میں ایک ذمہ دار پوزیشن پر فائز چودھری رمیض ظفر جسے ”بھائی“ کا لقب دیا گیا ہے اور ”شاہ جی“ شامل ہیں۔ چہار درویش میں ایک بڑی قدر مشترک ”دودھ پتی“ کا نشہ ہے۔

مت پوچھئے کہ چائے اگر خوش ذائقہ نہ ہو تو بنانے والے کو ہم باتوں ہی باتوں میں کس دنیا کی سیر کروا سکتے ہیں لیکن حالات برے ہوں تو جو ہے جہاں ہے کہ بنیاد پر دستیاب چائے ہی شرف قبولیت پاتی ہے۔ تحصیل چوک کے معصوم کیفے کی کافی اوربراؤنی ہم چاروں کی کمزوری ہے۔ خدا غریق رحمت کرے پروفیسر فیاض احمد حسین کے ساتھ ہم نے اسی کیفے میں بیٹھ کر طویل نشست کیا کرتے۔ پہلی محفل میں ہم نے احتراماً پروفیسر صاحب کے سامنے تمباکو نوشی سے پرہیز کیا۔ اٹھنے لگے تو پروفیسر صاحب محبت سے گویا ہوئے ”اوئے کمینو! اتنی دیر سے بیٹھے ہو، سگریٹ تو پی لو“۔ شرمندہ نظروں سے ہم دوبارہ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور نشست مزید طویل ہوگئی۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ”شاہ جی“ عالم جذب سے نکلیں اور عقل و خرد کی دنیا میں قدم رنجہ فرمائیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اسی عالم جذب کے سبب وہ مجلس چہار درویش سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔ چاروں درویش اکٹھے ہوں تو بڑے بڑے جغادری اور جملہ باز ہم سے پہلو بچا کر نکل لیتے ہیں۔ ممکن نہیں کہ سامنے سے گزرتا کوئی فرد بلاتخصیص جنس شاہ جی اور پروفیسر کی زد سے بچ نکلے۔ ایک دو بار تو حالت ایسی ہوگئی کہ جوتے پڑتے پڑتے بچے۔ شاہ جی اگر کبھی وجد میں آجائیں تو بڑے بڑے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے عزت بچانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ اسی صفت کی بدولت پروفیسر نے شاہ جی کو ”طارق ٹیڈی“ کا خطاب دے رکھا ہے۔

چہار درویش کی محفل گرم ہو، گفتگو اپنے عروج پر ہو، ایسے میں جو بندہ ہر چند منٹ بعد اٹھ کرہاتھ کی چھنگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہیں کا رخ کرے تو سمجھ لیجیے وہی پروفیسر ہے۔ مت پوچھئے کہ اس کے اٹھ جانے کے بعد باقی تین اس کی شان میں کیا کچھ فرماتے ہیں۔ پروفیسر کی موجودگی میں اس کی شان میں گستاخی ناممکن ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے کسی بھی تھانیدار کے پاس اگر گالیوں کا ذخیرہ کم پڑجائے تو پروفیسر سرائیکی کی ایسی ایسی گالیاں ہدیہ کر سکتا ہے کہ شیطان بھی دم دبا کر بھاگ نکلے لیکن سیاست اور سماج پر جب گفتگو ہو رہی ہو تو پروفیسر کی شستہ انگریزی اور لغت شاید گورے کو بھی پریشان کر دے۔

پروفیسر کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ملاقات کے وقت مقرر سے دو گھنٹے پہلے فون کر کے اطلاع دیتا ہے کہ میں دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں اور اس کے ہر دس منٹ بعد یہی جملہ دوبارہ دہراتا ہے۔ ظاہر ان حالات میں اس کی شان میں جو گستاخی کی جا سکتی ہے وہ کی جاتی ہے لیکن پروفیسر کے پہنچنے کے ٹھیک دو منٹ بعد سب گلے دور ہوجاتے ہیں کیونکہ اس کی سب سے بڑی خوبی اس کا یار باش ہونا ہے جس کے سبب وہ سب کا دل موہ لیتا ہے۔ مزید برائیاں میں اس کی اس لئے نہیں کر سکتا کہ اس کالم کے بعد بھی اس سے واسطہ پڑنا ہے۔

”بھائی“ حکومتی انتظام میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔ ملکی حالات کا درد اس کے لہجے اور گفتگو سے جھلکتا ہے۔ بھائی کی سیاسی رائے اور تجزیہ میرے سے بہت مختلف ہے اور اس پر ہم نے دسیوں بار گرماگرم بحث کی ہے۔ غنیمت ہے کہ یہ بحث ہمارے ذاتی تعلق پر آج تک اثر انداز نہیں ہوسکی۔ موجودہ حکومتی نظم سے بہت سارے پاکستانیوں سمیت بھائی کو بھی بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں جو اب ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ بھائی کہ یہ امیدیں برآئیں کیونکہ میرا مفاد کسی بھی سیاسی شخصیت یا جماعت کی بجائے اس ملک سے وابستہ ہے۔ بھائی نے اپنی زندگی میں بہت سے سرد و گرم دیکھے ہیں لیکن اب اس کی زندگی میں سہولت آگئی ہے۔ بھائی چاہتا ہے کہ یہ سہولت اس ملک کے ہر غریب کو زیادہ نہیں تو اتنی ضرور میسر ہو کہ اس کی زندگی سز ا نہ ہو۔

گزشتہ رات خاکسار، پروفیسر اور بھائی جامعہ ذکریا میں ہی اکٹھے ہوئے۔ قاسم ہال کے ساتھ بنی کنٹین رمضان کی وجہ سے رات بھر کھلی رہتی ہے۔ تابعدار لڑکا مدثر جانتا ہے کہ ہمیں ”ڈریور“ چائے کی طلب ہے۔ چائے کی پیالی پر شروع ہونے والی گفتگو طویل ہوتی چلی گئی۔ اس سے پہلے کے چائے کا دوسرا دور چلے ہم نے سوچا واک کی جائے۔ رات ایک بجے تک یاروں نے پھر میلوں لمبی واک کی۔ واک کے دوران بھی پروفیسر چھنگلی کا اشارہ کرنا نہیں بھولا لیکن اس بار ہم دونوں نے اس کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی۔ واک کے دوران ایک دوسرے کی خوبیاں، خامیاں، دکھ اور سکھ سب سانجھے کیے، اس طرح کہ شاید کوئی خونی رشتہ داروں کے ساتھ بھی نہ کر سکے۔

گالیاں بھی رج کے نکالیں ہم نے، لیکن کس کو؟ یہ نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ یہ راز کھل گیا تو بڑی تباہی ہوگی۔ ہم سنگسار نہ بھی ہوئے تو کفر کا فتویٰ تو پکا ہے۔ نتیجہ یہ نکالا ہے کہ بندے کے پتر کو اپنے رب پر یقین ہونا چاہیے اور نیت صاف۔ انسان کو زندگی میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ سینہ چوڑا کر کے ہمت کے ساتھ دے یا بکری بن کر رو پیٹ کر۔ ہمت سے برا وقت گزاریں تو جلدی گزرجاتا اور اچھا وقت انسان کو گلے لگاتا ہے۔ ہم اب جا رہے فضل حق کے پائے، نہاری اور ہریسہ کھانے۔ یار زندہ صحبت باقی! جلنے والے کا منہ کالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).