چاند ایک ہی بار چڑھ گیا


لوجی چاند دیکھنے کا رواج بھی ختم ہوا۔ ماضی کا قصہ ہوگیا۔ اب جدید دور ہے۔ اور اتنے جدید دور میں اتنا تو حق بنتا ہے کہ چاند دیکھنے جیسی فضول رسم کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ کہ حقیقت میں اس مصروف دور میں کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ چاند دیکھنے جیسی روایئت کو برقرار رکھاجا سکے۔ کہتے ہیں جب چاند چڑھتا ہے تو کل عالم دیکھتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اکثر یہ کل عالم کی بجائے چند علما کو ہی نظر آجاتا تھا اور ایک صوبہ میں عید ہو جاتی۔

اور باقی تین صوبے ویٹنگ لسٹ میں آجاتے کہ۔ چاند ادھر سے فارغ ہو کر ادھر بھی آئے گا۔ جب چاند کا خود بخود نمودار ہو جانا ایک قدرتی عمل ہے۔ تو کیا ضروری ہے کہ اس کودیکھنے کے لئے بیسووں لوگ اکٹھے کیے جائیں۔ ان کے لئے چائے پانی کا اہتمام کیا جائے۔ مراعات دی جائی۔ چاند دیکھنے والے پرانے، زنگ آلود آلات کو دھوپ، نہیں معاف کیجیئے ”رات“ لگوائی جائے

کہ چاند کون سا دن کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اسے تو رات کو دیکھا جاتا ہے۔ غروب آفتاب کے بعد، تو آلات بھی شام ڈھلے ہی نکلتے ہیں۔ اور پھر چاند نظر آئے نہ آئے یہ چاند کی مرضی۔ ویسے بھی بعض لوگوں کو اندھیرے میں نظر نہ آنے والا مرض بھی لاحق ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر چاند نے نظر آنا ہے تو پشاور میں بیٹھے مفتی پوپلزئی کو بنا دور بینوں کے بھی نظر آجا نا ہے اور اگر نہیں نظر آنا تو اس نے اتنی بڑی دور بین کی مدد سے مفتی منیب الرحمن کو بھی نظر نہیں آنا۔

اس میں ہو سکتا ہے کچھ نظر کی کوتاہ بینی کا معاملہ بھی ہو۔ کہ دھان پان سے مفتی منیب الرحمن کو عینک کے غلط نمبر کی وجہ سے چاند نظر آنے میں دشواری ہوتی ہو۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مفتی پوپلزئی کی صحت کو دیکھ کے ڈر کے مارے چاند خود ہی سامنے آجاتا ہو۔ اور ہر سال وجہ تنازع بن جاتا ہو کہ عید ہوگی یاروزہ۔ اور ہر کوئی اپنی بصارت کے بل بوتے پر عید منا لیتا تھا۔ ہم عید تو منا ہی لیتے تھے لیکن کتنے دنوں تک ملک میں دو دو عیدوں کا چرچا رہتا تھا۔

اکثر دوسرے منالک کے لوگ انگشت بدنداں نظر آتے اور بچوں کو بتاتے ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں کئی کئی عیدیں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ اس پر خاصے نالاں نظر آتے کہ دو عیدیں کیوں۔ حالانکہ یہ کوئی ایسی افسوس والی بات بھی نہیں۔ عید تو خوشی کا نام ہے اور اگر ہم عید کے نام پر دو بار خوشی منالیں تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات؟ خوش رہیں، خوش رہنے دیں۔ لیکن ہمیں شاید خوش ہونا آتا ہی نہیں۔ ہر سال اس بات پہ رنج منانے بیٹھ جاتے تھے کہ دو عیدیں کیوں؟

تبھی اس بات کو لے کر کچھ لوگ خاصے افسردہ تھے۔ پھر کوئی مرد مجاہد جاگا اور اس نے اس مسلئے پر سوچنا شروع کیا۔ اور سچ پوچھیے تو اس کے لئے ہمارے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر نے بڑی جان ماری ہے۔ یوں تو وہ جب سے حکومت میں آئے ہیں۔ جس شعبہ میں بھی گئے جان ہی مار رہے ہیں۔ جن دنوں وہ توانائی کے وزیر تھے۔ ان دنوں بھی ا س قدر توانا تھے کہ جان توڑ محنت کر کے ہیلی کاپٹر میں ڈالنے والے ایندھن کا ریٹ بھی پچاس روپے فی لٹر کر دیا تھا۔

ان کے اس جذبہ حب الوطنی کو دیکھتے ہوئے انھیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر بنادیا گیا۔ اور جب سے وہ سائنس و ٹیکناکوجی کے وزیر بنے ہیں چاند پہ چاند چڑھائے جارہے ہیں کبھی روحانیت کو سائنس سے ملا کر ”سپر روحانی سائنس“ یونیورسٹی کا سنگ بنیا د رکھتے ہیں۔ تو کبھی مذہب کو سائنس سے متصادم قرار دیتے ہوئے سائنس دانوں سے قمری کیلنڈر تیارکرواتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کبھی سائنس کو روحانی لوگوں سے دم کرواتے نظر آتے ہیں اور کہیں مذہبی کام کو سائنس کے سپرد کر کے مولویوں کی چھٍٹی کرواتے نظر آتے ہیں۔

ایک بات کو دو مختلف پیرائے میں استعمال کرنا بھی چن چڑھانے جیسا ہی ہے۔ وہ کبھی چاند کو اس طرح سے دیکھتے ہیں کہ وہ اگلے کئی سالوں کے لئے خود بخود ہی نظر آجاتاہے۔ سو عید کا چاند دیکھنے جیسی ایک فضول رسم کو خیر بادکہہ دیجیئے کہ چن تے چڑھ گے آ۔ اور ایک ہی پہ کیا موقوف یہاں تو ایک ساتھ کئی کئی چاند چڑھ گئے۔ یقین نہیں آتا نا مجھے بھی نہیں آیا تھا۔ گو کہ چاند چڑھانے کا سہرا عموماً لڑکے بالوں کے سر جاتا ہے البتہ کچھ بابے بھی یہ ذمہ داری نبھا لیتے ہیں لیکن یہاں یہ کام سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر موصوف نے انجام دیا ہے۔

اور ایک نہیں کتنے ہی چاند چڑھا دیے اور ساتھ گنوابھی دیے۔ جسے سن کر لگتا ہے اب کسی حسینہ کو شاید یہ گنگنانا نہیں پڑے گا کہ گلی میں آج چاند نکلا۔ کہ سارے چاند ایک ہی بارنکل آئے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا کباڑہ ناکام عاشقوں اور کامیاب شاعروں کا ہوا ہے۔ جنھوں نے محبوبہ کے دیدار کو عید کے چاند سے منسوب کر رکھا تھا۔ ان کے لئے بری خبر ہے کہ وہ اب عید کے چاند کو محبوبہ سے تشبیہہ نہیں دے سکیں گے۔ سو اب عاشق اورشاعر اس کے لئے کوئی نئی تشبیہہ ڈھونڈیں۔ عام لوگوں کا عید کے چاند سے اتنا ہی واسطہ ہوتا ہے کہ چاند دیکھ کر عید ہوتی ہے۔ لیکن اب اس کی ضرورت بھی نہیں ہوگی بنا چاند دیکھے بھی عید ہو جائے گی۔ برا تو ان کا ہوگا جو چاند دیکھ کے بھی عید نہیں کر سکیں گے

کہ کیلنڈر میں عید اگلے دن ہو گی سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کے قمری کیلنڈر تیار کروانے کے قدم کو دیکھتے ہوئے ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کہ وہ ایک دیرینہ وجہ تنازعہ کو ختم کرناچاہتے ہوں۔ وہ دو مفتیان کرام کو باہمی ٹکراؤ سے بچانا چاہتے ہوں۔ جو ہر عید پر: ہمیشہ ٹکرا جاتے تھے اور حکومت بڑبڑاتی رہ جاتی تھی۔ کہ عید سے ڈر نہیں لگتا مولوی، چاند سے لگتا ہے جو دو دو بار نکل آتا ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے اس قمری کیلنڈر کے بننے میں بھی حکومت کی کوئی بہت بڑی حکمت ہے تبھی تو دیکھیے نا مفتی پوپلزئی اور مفتی منیب الرحمن جو آج تک چاند کے معاملے پر متفق نہیں ہوئے تھے ایک ہی پیج پر ہیں۔ یوں سمجھیئے ”ایوی چن ای چڑھے آ“۔ چلیں اس پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے مشرق اور مغرب کے مفتیان کرام کو ایک کردیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).