پختون، افغان اور افغانی


کیا سارے افغان پختون ہیں؟ کیا سارے پختون افغان ہیں؟ کیا سارے پختون افغانی ہیں؟ کیا کسی پاکستانی کا خود کو افغان کہنا غداری کے مترادف ہے؟

پختون، افغان اور افغانی و افغانستانی مختلف اصطلاحات ہیں جن کے استعمال میں عموماً فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ افغان ہونا ایک تاریخی پہچان بھی ہے اور جغرافیائی قومیت بھی۔ اس کے برعکس پختون ایک نسلی اورلسانی شناخت ہے۔

افغانستان میں رہنے والے سارے لوگ پختون نہیں ہیں۔ وہاں فارسی بولنے والے ہزارہ اور تاجک، ازبک اور بلوچ نسلوں کے لوگ بھی بستے ہیں۔ یہ سارے افغان اور افغانستانی و افغانی ہیں لیکن پختون نہیں ہیں۔ یعنی سارے افغانوں کا پختون ہونا ضروری نہیں۔

خیبر پختونخوا کے پختون ہوں یا بلوچستان کے بلوچ، تاریخی یا نسلی طور پر افغان ہو سکتے ہیں لیکن جغرافیائی طور پر وہ پاکستانی ہیں۔ وہ پاکستانی افغان ہیں، افغانی و افغانستانی نہیں ہیں۔

اس کے برعکس افغانستان میں رہنے والے پختون اور دیگر لسانی قومیتوں کے افراد تاریخی اور جغرافیائی طور پر افغان بھی ہیں اور افغانی بھی۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے وسطی اور قبائلی اضلاع میں رہنے والے پٹھان حتیٰ کہ غیر افغان مثلاً ہندکو بولنے والے جب سکول میں داخل ہوتے ہیں تو شروع سے ہی ان کی قومیت کے خانے میں افغان لکھا جاتا ہے۔ یہی پہچان انہیں لفظ پاکستان (Pakistan) میں A یعنی الف سے بھی دی گئی ہے جو افغانیہ یعنی افغان کی سرزمین کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے جب 2016 میں یہ کہا کہ وہ افغان تھے، ہیں اور افغان ہی رہیں گے وہ شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس صورت میں ایسا کہنا غلط نہیں اور اس میں کوئی برائی نہیں۔

لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ پاکستانی کے بجائے افغانی یا افغانستانی بن گئے ہیں۔

اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ سارے یا اکثر پختون تاریخی طور پر افغان ہیں مگر یہ جغرافیائی قومیت کے لحاظ سے پاکستانی ہوں گے یا افغانی و افغانستانی۔

افغان پہچان/قومیت میں پختونوں کے ساتھ غیر پختون بھی شامل ہیں۔ ممتاز کالم نگار حامد میر نے حال ہی میں روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا۔

” یہ افغان صرف وہ نہیں جو افغانستان میں رہتے ہیں بلکہ یہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں جن کو پختون اور پٹھان کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد نواز خان محمود اپنی کتاب“ فرنگی راج اور غیرت مند مسلمان ”میں لکھتے ہیں کہ افغان، پشتون یا پٹھان کی نسل بنی اسرائیل (حضرت یعقوب علیہ السلام) سے ہے، اُنکے جدِ امجد کا نام افاغنہ تھا جو بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت کا پوتا تھا۔ اگر کوئی پاکستانی پشتون اپنے آپ کو افغان کہتا ہے تو کسی کو غصے میں آنے کی ضرورت نہیں یہ اُسکی پہچان ہے۔

جس طرح پنجابی بھارت میں بھی رہتے ہیں، پاکستان میں بھی رہتے ہیں، سندھی بولنے والے بھارت میں بھی ہیں، بلوچی بولنے والے افغانستان اور ایران میں رہتے ہیں، اُسی طرح پشتو بولنے والا پاکستانی اپنے آپ کو افغان کہہ دے تو مسکرا کر اُسے گلے لگایئے اور کہہ دیں میں بھی افغان ہوں کیونکہ آج کے پاکستان میں رہنے والوں کے اکثر بزرگوں کو حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ اور لال شہباز قلندرؒ نے مسلمان کیا اور یہ صوفیاء افغان تھے۔ ”

جب سارے افغانوں کا پختون ہونا لازم نہیں، اکثر پختونوں کا افغان ہونا ممکن ہے مگر سارے پختونوں کا افغانی ہونا ممکن اور لازم نہیں تو اس ے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟

اگر کوئی پاکستانی پختون خود کو یہ سوچتے ہوئے افغان کہتا ہے کہ جیسے افغانستان صرف پختونوں کی ریاست ہے اور اس پر وہ فخر کرتا ہے تو اس کی بات غلط فہمی پر مبنی ہے۔ یہ دعویٰ درست نہیں۔

اور اگر اس کامقصد یہ ہے کہ موجودہ افغانستان کا علاقہ صدیوں قبل ہجرت کرکے پاکستان آنے والے ان کے اجداد کی سرزمین رہا ہے اس لیے وہ بھی افغان ہیں مگر اب پاکستانی افغان ہیں تو یہ درست بات ہوگی۔

افغان ہونا یا کہلانا نہ کوئی گالی ہے اور نہ ہی یہ ملک سے غداری کا ثبوت ہے۔ اس لیے یہ حد درجہ نامناسب بات ہے کہ خود کو افغان کہنے والوں کو افغانستان کا ایجنٹ اور غدار قرار دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).