تحدیث نعمت — یاد یار مہربان


نعمت صاحب کوئٹہ کے قریب کچلاک نامی قصبے کی ایک آبادی کلی سام خیل کے باسی تھے۔ زندگی زمانے کے سردوگرم سہتے گزری تھی۔ بچوں کے دیہی سکولوں میں پڑھانے سے افغان مہاجر بستیوں کی منتظمی تک، سیبوں کے باغات کی ٹھیکے داری سے کوئلے اور کرومائٹ کی آڑھت تک، نوع بہ نوع کام کیے تھے۔ بہت سے لوگ اس خادم کے آشناوں میں ایسے ہیں جنہوں نے ان میں سے کسی ایک یا سبھی دھندوں میں لاکھوں کروڑوں کمائے۔ نعمت صاحب لیکن، اپنی طبّاعی ذہانت، ایمان داری اور ہنر مندی کے باوجود دامن میں مشتِ خاک جگر کے ہی قارون رہے۔

اس کا سبب اس خادم کی نظر میں ان کی مال و منال سے طبعی بے رغبتی، بے ریا دوست داری، اور خود سے زیادہ خلقِ خدا کی فلاح کی فکر ٹھہرا۔ علم و ہنر، پیشہ ورانہ مہارت اور روشن فکری اور ترقی پسندی سے اٹوٹ وابستگی کے باوصف ہمیشہ ایک خالص دیہاتی جیسے حلیے میں رہتے اور کبھی کبھار سرکاری اور پیشہ ورانہ اجتماعات میں ظاہر بین لوگ انہیں اس وجہ سے نظر انداز بھی کرتے، لیکن جیسے ہی انہیں دو جملے کہنے کا موقع ملتا، تو مخاطبین کی آنکھوں کا غبار پل بھر میں دھل کر ان کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتا۔

نعمت صاحب کو ایک خداداد ملکہ ودیعت ہوا تھا کہ بدترین جھگڑے کے فریقین، جن میں بسا اوقات قتل تک کی وارداتیں گزر چکی ہوتیں، صرف اور صرف نعمت صاحب کی بدولت ساتھ بیٹھ کر معاملے کا پر امن حل نکالنے پر رضامند ہوجاتے۔ احباب واقف ہوں گے کہ ہمارے صوبہ بلوچستان کے ساتھ قدرت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں زمیں وسیع، عریض اور زرخیز ہے، وہاں پانی نہیں۔ جبکہ دوسری جانب چند علاقوں میں کچھ نہ کچھ پانی تو موسمی یا دائمی میسر ہے مگر تنگ وادیوں میں جہاں قابلِ کاشت زمیں بہ صرف زیار و زر کثیر خود بنانا پڑتی ہے۔

ایسے میں پانی کی باہمی تقسیم پر اختلاف لڑائی جھگڑے کا بہت بڑا سبب ہے اور بسا اوقات اختلافات مار پیٹ حتی کہ قتل تک پہنچ جاتے ہیں۔ بلوچستان کے کوہ و دمن اور بے شمار لوگ، بشمول منتخب نمائندگان، سرکاری افسران، شراکتی ترقی کے شعبہ سے متعلق لوگ، زمین دار، دہقان، گواہ ہیں کہ خصوصا پانی کے جھگڑوں کو پر امن طور پر نمٹانے اور اکثر فریقین کو وسائل کے مشترکہ طرز پر استعمال پر راضی کرنے میں نعمت صاحب کی مساعی بے نظیر حیثیت رکھتی ہے۔

کاکڑ پشتون ہونے اور ایک قوم پرست سیاسی پارٹی سے دیرینہ، علانیہ اور بے لوث تعلق کے سبب، اور صوبے کی برادر اقوام کے مابین کھنچاؤ کے تاثر کے تناظر میں، شروع میں دفتر میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ پشتون علاقوں میں تو نعمت صاحب بہت کارگر ہیں، بلوچ علاقوں میں شاید ان کے لیے کچھ مشکل ہو۔ ایک دو مرتبہ کچھ ہم کاران کے چھٹی پر ہونے کے سبب نعمت صاحب کو صوبے کے دیگر علاقوں میں بھیجا گیا تو ویسے ہی باکمال نتائج لے کر آئے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران تو انہیں پاکستان کے تمام علاقوں، خصوصا سندھ میں کام کرنے کا موقع ملا اور ہر جگہ لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے علم، ہنر اور حلم کی قدر کرتے۔ اس خادم

نے بلوچستان کے طول و عرض میں، برف پوش پہاڑوں، چلغوزے اور صنوبر کے جنگلوں، ریتلے صحراوں اور سنہرے ساحلوں کے بیچ نعمت صاحب کے ہمراہ سفر کیا ہے۔ کبھی خیموں میں، کبھی کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں، کبھی کسی کے حجرے میں تو کبھی کسی سکول یا اسپتال میں سر چھپانا پڑتا۔ یہ بندہ خدا ہر جگہ ساتھیوں کا اکرام کرنے، اپنے آرام کی قیمت پر دوسروں کی راحت کا سبب بننے میں پیش پیش رہتا۔ نعمت صاحب کے ساتھ رہنے والے ساتھیوں نے ان سے یہ سیکھا کہ نامساعد حالات میں انسان اپنی حسِ مزاح کیسے برقرار رکھ سکتا ہے، حواس کو آرام پہنچانے میں موسیقی کا کیا کمال ہے، اچھے شعر کی کیا رمز ہوتی ہے، کثیف موضوع کے مضحکے کو لطیف کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

اور اس میں ان کے افسران، ہم چشمان اور خدمت گار عملے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ سبق بھی نعمت صاحب سے سیکھا کہ قوم پرستی اور تعصب کیسے دو الگ الگ اور متضاد جذبے ہیں۔ کوئی شخص ایسا نہ ملے گا جو نعمت کے دل میں اپنی قوم کی بے پایاں محبت پر شک کرسکتا ہو۔ لیکن کوئی ایسا بھی نہ ملے گا جو نعمت کے دل میں کسی بھی شخص، قوم یا ملک کے لیے نفرت کے شائبہ تک کا گمان کرتا ہو۔

نعمت صاحب دمے اور الرجی کے مزمن مریض تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا تو زیادہ وقت اپنے محبوب کوئٹہ کی خشک اور خاک آلود فضا کے بجائے کراچی میں گزارنے لگے۔ وہیں سے کچھ بدنی امتحانات کی خبریں آتی رہیں اور کسی ذریعے سے چند مخصوص دوستوں تک اطلاع پہنچی کہ نجانے کب سے نامراد کیکڑے نے نعمت صاحب کے بدن میں گھر کر رکھا ہے۔ جو اعصابی نظام میں پھیل چکا ہے۔ یہ خادم ایسا ایک سانحہ ایک سال قبل اپنے ہی گھر میں جھیل چکا تھا چنانچہ اس کے مضمرات سے آگاہ تھا۔

یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا تھا کہ اتنے پھیلے ہوئے سرطان کے ساتھ مرض کی تکلیف زیادہ ہوگی یا کیمو تھراپی کے ضمنی اثرات کی۔ ہمارا دوست، ہمار استاد، ہمارا برادر بزرگ کینسر کے آہستہ آہستہ پھیلاؤ سے ایک ٹانگ مفلوج ہو کر بھی لڑ رہا تھا لیکن کیمو تھراپی کے پہلے سیشن کے بعد کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وار بھاری پڑ گیا ہے۔ آج چھے پہر کے سفر کے بعد اٹھائیس گھنٹے کا جاگا ہوا منزل پر پہنچا ہی تھا کہ نعمت صاحب کے بیٹے گلزار کا فون موصول ہوا۔

دل سمجھ گیا کہ کیا سناونی ہو گی۔ اس سے پہلے کہ یہ خادم جی کڑا کر کے فون اٹھاتا، گلزار نے شاید اظہارِ غم کا حوصلہ نہ پا کر بند کر دیا۔ عید کے ہجوم کے باعث پہنچنے کی کوئی سبیل نہیں بن رہی تھی اور یوں بھی دیگر دوستوں نے بتایا کہ بعد عصر نعمت صاحب کو لالہ و گل کی صورت میں نمایاں ہونے کے سفر کے پہلے مرحلے پر روانہ کردیا گیا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ لاشعوری طور پر جانے سے گریزاں بھی تھا۔ یہ خادم اپنی لفاظی کی بدنامی کے باوجود ایسے مواقع پر جب کسی اپنے قریبی کا یہ مرحلہ درپیش پاتا ہے تو پنبہ در دہاں ہوجاتا ہے۔ تعزیت و پرسے کے سب الفاظ بے معنی لگتے ہیں۔ بندہ کس سے کہے اور کیا کہے۔ بس۔ رفتید ولے نہ از دلِ ما۔ اے ہم نفسانِ محفل ما۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2