تحدیث نعمت — یاد یار مہربان


یہ خادم پہلے بھی یہ قصہ کسی نہ کسی رنگ میں سنا کر یاروں کو دق کرتا رہتا ہے، لیکن ”لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم“، اس گلدستے کو ہر بار نئے ڈھنگ سے باندھنا بجائے خود دلچسپ کام ہے۔ اب جب کہ اس قصے میں ایک غم انگیز باب کا اضافہ ہوگیا ہے تو ارسطو سے منسوب منطق کی رو سے اس کی اثر پذیری اور گہرائی بڑھ گئی ہے۔ ایک پس ماندہ ملک کے پس ماندہ ترین صوبے سے تعلق کی بنا پر، دستیاب تعلیمی میدانوں میں اس خادم کو انجینیئرنگ کا انتخاب کرنا پڑا۔

پاکستان کی سب سے اچھی انجینیئرنگ یونیورسٹی میں، اس وقت میرٹ کے لحاظ سے سب سے اونچے شعبے یعنی برقیات میں داخلہ ہوا۔ پہلے ہی شش ماہے میں اندازہ ہوگیا کہ برقیاتی انجینیئرنگ پاکستان میں جس ڈھنگ سے پڑھائی جاتی ہے، وہ شاید ایمان بالغیب کی پختگی کے لیے تو کارگر ہوتا ہو، لیکن ایک اطلاقی شعبے کے لیے قطعی ناموزوں ہے۔ اس خادم کی دانست میں طرزِ آموزش کچھ اس طرز پر ترتیب دیا گیا تھا کہ کچھ باتوں پر ایمان بالغیب لا کر پھر باقی عمارت اوپر چڑھائی جاتی تھی۔ چنانچہ بقول علامہ اقبال خوگرِ پیکرِ محسوس ہونے کی رعایت سے جی اچاٹ ہوگیا۔ مارے باندھے ڈگری تو حاصل کر لی اور اچھے خاصے اعلی درجے میں، لیکن اس شعبے سے اباء کے سبب چندان عملی دست گاہ بہم نہ ہو پائی۔

کراچی اس وقت ایک شدید نازک دور سے گزر رہا تھا اور حقیقی یا مزعومہ نا انصافیوں کی بڑی توجہ سے اگائی گئی فصل نفرتوں کے آک اور ٹھوہر ہر سمت کھِلا رہی تھی۔ خونِ انسان کی اس قدر ارزانی اس سے پہلے نہ دیکھی تھی۔ یونیورسٹی کے ہنگاموں کے سبب اکثر عین امتحانات کے بیچ بند ہوجانے کی وجہ سے دور دراز کے طلباء ہاسٹل میں بند ہوکر رہ جاتے تھے۔ ایسے غیر یقینی حالات میں مطالعے کی مزمن لت مزید پروان چڑھی۔ آوارہ خوانی کا ہوکا تو پہلے سے تھا لیکن یہاں ایک نعمتِ غیر مترقبہ، فلسطین سے یمن تک، گوادر سے خیبر تک، اور وانا سے واہگہ تک کے ایسے احباب کی شکل میں میسر آئی جن سے ادق موضوعات پر کیے گئے مطالعہ پر بات چیت کا موقع ملتا رہا۔

کتابی علم کو عملی تجربات اور مشاہدات کی کسوٹی پر کسا جاتا اور حالات پر ان کے اطلاق کی راہیں کھوجی جاتیں۔ اگرچہ عشقِ مجازی کا تجربہ نہ ہوا تھا لیکن دعوی کیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ فیض صاحب کے درجے کی تو نہیں مگر کچھ کچھ ”عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی۔ یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے“۔ اس راہ میں خاصا عملی کشٹ بھی کاٹا۔ جس کا بیان اس خاطر صرفِ نظر کرنا مناسب ہوگا کہ حسبِ عادت جملہ معترضہ طویل تر ہو جائے گا۔

ڈگری حاصل کر تو لی لیکن یہ ادراک بھی تھا کہ اس شعبے سے انصاف کرنا ٹیڑھی کھیر ہوگا اور دوسرے یہ کہ کم از کم اپنے وطن میں بجلی کے کھمبے کھڑے کرنے یا نادہندگان سے بِل بلکہ رشوت وصول کرنے کے سے زیادہ اہم مسائل دامن کشاں ہیں۔ دوسرے یہ احساس بھی دامن گیر تھا کہ جن لوگوں کی حالتِ زار اور انہیں درپیش مسائل کے بارے میں تقریروں اور تحریروں کے ڈھیر لگا رکھے ہیں، ان کا براہِ راست تجربہ شہری متوسط طبقے سے تعلق کی وجہ سے صفر ہے۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک یارِ عزیز قمرالزمان سعید نے ایک برطانوی نجی ادارے کا پتا دیا جو حکومت بلوچستان کے محکمہ آبپاشی کو تکنیکی مدد فراہم کرتا تھا۔ یہ خادم قمر کے اس احسان کا تا عمر زیر بار رہے گا۔ اس میں ایک ایسی ملازمت کے لیے امیدواروں کو جانچا جا رہا تھا جس میں کسانوں کے ساتھ کام کرنا تھا۔ کیا کرنا تھا؟ اس کا خاک علم نہ تھا۔ نہ جاننے والوں میں سے کسی نے اس قسم کے کام کے بارے میں کبھی سنا تھا۔

این جی اوز، شراکتی ترقی، صنفی ترقی کے تصورات کم از کم ہمارے وطن میں قطعی ناشنیدہ تھے۔ آبپاشی کا یونیورسٹی میں پڑھایا جانے والا اکثر علم بھی سندھ طاس کے نہری نظام کے بارے میں تھا جس سے ہمارے صوبے کا اکثر حصہ باہر ہے۔ خیر، قسمت اچھی تھی یا اس روز آجرین سے بے توجہی ہو گئی کہ یہ خادم اس ”سوشل آرگنائزر“ نامی نوکری کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ متعلقین، اہلِ خانہ اور ہم چشموں نے، جو ہمارے ہاں نوجوانوں کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں جا و بے جا دخیل ہوتے ہیں، نوکری کا سنا تو رسمی مبارک باد کے بعد پوچھا کہ پکّی نوکری ہے یا کچی؟

کچھ نے دبے الفاظ میں ”فضلِ ربی“ کے امکانات کے بارے میں استفسار کیا اور تقریبا سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ گاؤں گاؤں پھرنے والی ”خشک“ نوکری ہر گز ایک انجینیئر کے شایانِ شان نہیں لیکن چونکہ گوروں کے ساتھ ہے تو وقتی طور پر چلے گی۔ کچھ نے اس یقین واثق کا بھی اظہار کیا کہ شہری بابو دو چار دن دیہات کے سخت حالات کی ٹھوکریں کھا کر راہِ راست یعنی مقابلے کے امتحان یا ایس ڈی او کی قبیل کی نوکری کی سمت آ جائے گا۔

لیکن ہوا کیا؟ اس دھندے میں وہ پہلا قدم ایسا مبارک ثابت ہوا کہ یہ خادم کہ دنیا بھر کا پانی چکھ چکا ہے اور قسما قسم کی ملازمتیں کر چکا ہے، کسی نہ کسی طور اب تک اسی راہ سے منسلک ہے۔ سچ پوچھیں تو ادھیڑ عمری سے بھی آگے پہنچنے، اور ایک بین الاقوامی ادارے میں قدرے سینیئر عہدوں پر متعین رہنے کے باوجود یہ خادم طبیعتا اندر سے وہی ”سوشل آرگنائزر“ ہے۔ احباب، خصوصاغیر ملکی ہم کار اکثر پوچھتے ہیں کہ یہ خادم جو اعلی سطحی اجلاسوں میں چندے تکلف سے اور کچھ رسمی رسمی سا رہتا ہے، کیونکر کسانوں، بے گھر مہاجرین، چرواہوں، دست کاروں کے ساتھ بیٹھتے ہی کھِل اٹھتا ہے۔ اب کیا عرض کیا جائے ”تو اے کبوترِ بامِ حرم چہ می دانی۔ تپیدن دلِ مرغانِ رشتہ برپا را“۔

اس کام کے عشق بننے، یا عشق کو کام سمجھنے میں جہاں اور کئی عوامل مددگار رہے، سب سے اہم، بنیادی اور محکم ترین وہ برادرانہ، مشفقانہ اور معلمانہ رویہ تھا جو نوکری کی ابتدا سے ہی اولین ہم کاروں کی جانب سے میسر آیا۔ اگرچہ استاد محترم ڈاکٹر فرینک وان سٹین برجن کی علمی اور نظری رہنمائی کا شکر

یہ واجب ہے مگر اس خادم جیسے بے بصیرت، دیہی سماج کی حرکیات کے بارے میں کتابی اور اکثر گم راہ کن معلومات کے حامل، سرتاپا شہری نوجوان کو اللہ بخش، نعمت اللہ، عبدالرووف، عبدالقدیر جیسے رفقاء کی جانب سے تعاون، رہنمائی اور محبت قدم قدم پر میسر نہ آتے تو عین ممکن تھا کہ ”راہِ راست“ پر لوٹ آتا اور ”بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی، اور مر گئے“ میں زندگی کا خلاصہ ہوجاتا۔ ان پرخلوص اور دیہی سماج کے عظیم نباضوں میں یوں تو جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے، لیکن اس خادم کی یاد میں نمایاں ترین احسانات یارِ عزیز نعمت اللہ خان کے ہیں۔ ”دل پہ تاعمر رہا ثبت رُخِ یار کا نقش۔ وقت دُھندلا نہ سکا پرتوِ دلدار کا نقش“۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2