گالیوں اور گولیوں کی بوچھاڑ


نوجوان قبائلی نقیب اللہ محسود کے کراچی میں ایک مشکوک پولیس مقابلے میں بیہمانہ قتل کے رد عمل میں شروع ہونے والی پشتون تحفظ موومنٹ اس وقت مکمل طور پر پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف برپا ہونے والی زہریلی اور نفرت انگیز مہم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ابتدائی طور پر پی ٹی ایم کے تین بڑے مطالبات، قبائلی علاقوں میں جا بجا سیکیورٹی چیک پوسٹس کاخاتمہ، بارودی سرنگوں کی صفائی ”اور لاپتا افراد کی بازیابی سامنے آئے، جن پر اداروں کی طرف سے کافی حد تک مثبت پیش رفت ہوئی، لیکن حیران کن طور پر اس کے بعد پی ٹی ایم رہنماؤں کے لہجے کی تلخی بڑھتی گئی۔

پہلے ان کے جلسوں میں پاکستانی پرچم لے آنے پر پابندی لگی۔ اس کے بعد فوج کے خلاف اشتعال انگیز نعرے بازی اور پی ٹی ایم رہنماؤں کی طرف سے جلسوں میں فوج، اور فوجی افسران کو گالی گلوچ اور دھمکیاں دینے کا مرحلہ آیا، جس میں لوگوں کو اداروں کے خلاف مشتعل کیا گیا۔ اس سے اگلے مرحلے میں فوجی کانوائے اور چیک پوسٹوں پر لوگوں کو جمع کر کے فوجی جوانوں کو غلیظ گالیاں دلوائی گئیں جب وہ اس سب کے باوجود مشتعل نہ ہوتے، اور پیچھے ہٹنے لگتے تو ان پر شدید پتھراؤ کروا جاتا، اور ان واقعات کی اہتمام سے ویڈیوز بنا کر پروپیگنڈہ کرنے والے سوشل میڈیا اکاونٹس پر ڈال دی جاتیں۔

بالآخر وہ افسوسناک واقعہ پیش آ گیا جس میں مشتعل ہجوم کی قیادت کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کے دو اراکین اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر ایک فوجی چیک پوسٹ پر پہنچے، تو تکار ہوئی، اور نوبت مسلح تصادم تک جا پہنچی جس میں تین قبائلی مظاہرین اور ایک فوجی نوجوان کی جان چلی گئی۔ اگر محسن داوڑ وغیرہ نے چیک پوسٹ پر حملہ نہی بھی کیا تو بھی علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کو فوجی جوانوں کو دھمکاتے اور گالیاں دیتے صاف دیکھا جا سکتا ہے۔

لگتا ہے ان لوگوں کو جلد سے جلد کچھ لاشیں چاہیے تھیں جو ان کو مل گئیں۔ اس وقت سوشل میڈیا پر سینکڑوں ایسے اکاونٹ فعال ہو چکے ہیں۔ جن میں انتشار اور نفرت پھیلانے والے مواد کی بھر مار ہے۔ اسی طرح کے ایک سوشل میڈیا پیج پر ایک پشتون نوجوان ہاتھ میں پستول لے کر چیخ چیخ کر یہ بتا رہا ہے کہ پنجابی ہمیں مار رہے ہیں، یہ پستول میں نے ایک پنجابی حملہ آور سے چھینی ہے۔ انہوں نے پہلے بھی ہمیں مارا ہے۔ ہم لاہور میں ہیں، یہ دیکھو انہوں نے ہماری دکان کا سامان سڑک پر گرا دیا ہے، یہ پنجابی ہم پر بہت ظلم کر رہے ہیں۔

اس طرح کے نفرت انگیز مواد کے ذریعے سے اب باقاعدہ طور پر ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر لے جانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ یہ تحریک اب عمومی حقوق کی جدوجہد سے ہٹ کر ملک کی سب سے بڑی لسانی اکائی پنجابیوں کے خلاف ایک منظم نفرت انگیز مہم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کا مظاہرہ اسلام آباد میں فرشتہ مہمند نام کی ایک معصوم بچی کے قتل کے واقعہ پر صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ جب پی ٹی ایم رہنماؤں نے اپنی زہریلی تقریروں کے ذریعے اس واقعے کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی اور بعد ازاں حسب دستور فوج کو غیر ضروری طور پر دشنام کا نشانہ بنایا، اور اپنا مطلب پورا ہوتا نہ دیکھ کر چپکے سے غائب ہو گئے۔

اسی طرح کی ایک کوشش سوات میں کی گئی، تاکہ ایف سی کے جوانوں پر ریپ کا الزام لگایا جا سکے۔ حالانکہ اس وقت پورے ملک میں پختون لوگ اپنے کاروبار کر رہے ہیں، ملازمتیں کر رہے ہیں، اور کئی علاقوں میں دہائیوں سے آباد ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں پوری کی پوری مارکیٹیں پختون لوگوں کی ہیں۔ اور پنجاب میں کبھی بھی کہیں بھی کسی پختون کے ساتھ کسی پنجابی کا لسانی یا نسلی بنیاد پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ جس پاکستانی فوج کو زبان درازی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کا ایک قابل ذکر حصہ تو پشتون لوگوں پر مشتمل ہے۔

فرنٹیر کور تو تقریباً ساری کی ساری انہی قبائلی اور پشتون نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ایسے لگتا ہے اس تحریک کی ڈوریاں اب نادیدہ ہاتھوں سے ہلائی جا رہی ہیں۔ جن کے ڈانڈے سرحد پار سے جا کر مل رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں ایسے کیلنڈر تقسیم کیے جا رہے ہیں جن میں پاکستان کے پشتون علاقے افغانستان میں شامل دکھائے جا رہے ہیں۔ ان پر منظور پشتین کی تصاویر بھی موجود ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں ان سے منسوب سرخ ٹوپیاں اور شرٹیں تیار ہو رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ، بی بی سی اور بھارتی و افغانی ذرائع ابلاغ ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ جب تندور گرم ہو تو ہر کوئی اپنی روٹیاں سینکنے پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت کچھ ہاری ہوئی قوم پرست جماعتیں، پاکستان کے کچھ نیک طینت پڑوسی اور کچھ مغربی ممالک کی ایجنسیاں سب بڑھ چڑھ کر ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں۔ سب نے اپنے اپنے حساب چکانے ہیں۔ محسن داوڑ نے اب مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی فوج قبائلی علاقوں سے نکل جائے۔

یہ وہی مطالبہ ہے جو تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کا ہے۔ اب پی ٹی ایم اور تحریک طالبان پاکستان میں بس اتنا ہی فرق رہ گیا ہے کہ طالبان پاکستانی فوج پر بندوقوں اور بموں سے حملہ کرتے ہیں جبکہ پی ٹی ایم کے رہنما زبان سے۔ وہ فوجی نوجوانوں پر گولیوں کی بوچھاڑکرتے ہیں، اور یہ گالیوں کی۔ ان کا نشانہ بھی افواج پاکستان ہیں، یہ بھی افواج پاکستان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان سے بھی پاکستان کے دشمن خوش ہیں کیونکہ ان کے حصے کا کام ان طالبان نے سنبھال رکھا ہے، اور ان سے بھی پاکستان کے دشمن خوش ہیں کیونکہ ان کے کرنے کا کام سول رائٹس کی تحریک کی آڑ میں پی ٹی ایم والوں نے سنبھال رکھا ہے۔

صرف نام کا فرق رہ گیا ہے، دونوں کا نشانہ ایک ہی ہے اور کام بھی ہی ایک ہے۔ یہ وہی فوج ہے جس نے ان قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کیا۔ سات ہزار سے اوپر فوجی نوجوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے ہیں۔ صرف بارودی سرنگوں کی صفائی کرتے ہوئے ایک سو کے قریب جوان شہید ہوئے ہیں۔ ہم نے روز لاشے اٹھائے ہیں۔ پاکستان کے ہر دوسرے گاؤں یا شہر میں ایک شہید کی میت آئی ہے۔ ان کے سروں سے فٹ بال کھیلے گئے ہیں۔

ان کے بچوں کو مارا گیا ہے۔ یہ میرے جوان میرے وطن کی آن ہیں، شان ہیں۔ وہ ان علاقوں سے کیوں نکلیں۔ وہ اپنے وطن کے دفاع کے لئے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم دوبارہ اپنے وطن کو اور قبائلی عوام کو وحشیوں کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑیں۔ خدارا ایسے لوگ ہوش کے ناخن لیں جو انجانے میں غیروں کا کا آسان کر رہے ہیں۔ ہمارے محب وطن قبائلیوں اور پختونوں کو ان انتشار پھیلانے والے لوگوں کے خلاف اٹھنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).