پاکستانی حکومت ”ایک قسمت پوڑی“


بچپن میں دکانوں سے کاغذ کی پڑیا ”قسمت پوڑی“ کے طور پر ملا کرتی تھی۔ ایک چھوٹے سے کاغذ میں لپٹی ہوئی چار آنے کی ایک قسمت پوڑی۔ ایک چھوٹا سا بسکٹ جو ویسے خریدے جاتے تو چار آنے کے دس مل جاتے لیکن اس قسمت پوڑی میں سے ایک نکلتا اور اگر قسمت ساتھ دیتی تو کبھی کبھار اس میں ایک اسٹیکر اور کبھی اسی طرح کی کوئی اورچیز۔ جو شاید الگ خریدی جاتی تو چار آنے کی بآسانی مل جاتی۔ تو بچپن میں اس قسمت کے ”کھیل“ سے بہت لطف اندوز ہوتے۔

گھر والوں کے شاید کتنے کی چار آنے خرچ کردیتے لیکن اس قسمت پوڑی سے نکلنے والی ایک آدھ چیز کو بڑے فخر سے گھر والوں کو دکھاتے کہ دیکھیں ہماری قسمت کتنی ا چھی ہے کہ ہماری قسمت پوڑی سے یہ انعام نکلا۔ اور گھر والے بھی ہماری خوشی میں بادل نخواستہ شامل ہو جاتے۔ کیونکہ انہیں تو علم ہوتا تھا کہ جتنے پیسے خرچ کرکے ہم نے اپنی قسمت پوڑی سے یہ انعام نکالا ہے اگر ویسے اس انعام کو خریدتے تو کہیں زیادہ حاصل کرسکتے تھے۔

بہرحال بچپن سے ہی قسمت کا ”کھیل“ شروع ہوجاتا اور ہم بغیر حسا ب کتاب کیے بغیر نفع نقصان کا سوچے قسمت قسمت کھیلتے۔ کبھی کبھی اپنی قسمت کو بھی کوستے کیونکہ جب کافی قسمت پوڑیاں خریدنے کے بعد بھی کوئی انعام نہ نکلتا اور دکاندار کو شکوے بھرے انداز میں کوئی بات کرتے تو آگے سے ہماری ہی قسمت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا کہ ”تمہاری تو قسمت ہی خراب ہے دیکھو کل ماجد کے اتنے انعام نکلے۔ تمہاری تو قسمت میں ہی انعام نہیں لکھا تو میں کیا کرسکتا ہوں“ اور ہم اپنی قسمت کو کوستے پھر پیسے لے کر قسمت آزمانے دکاندار کے پاس پہنچ جاتے۔

یقینا ًدکاندار تو ہم جیسے ”قسمت آزما“ کو دیکھ کر اپنی قسمت پر نازاں ہوتا ہو گاکیونکہ اس سے ہی اس کی روزی روٹی چلتی تھی اور ایک ہم کئی قسمت پوڑیوں کے بعد ملنے والے انعام کو حاصل کرکے ”چچا جی تسی گریٹ او“ کا نعرہ لگا کر گھر کی طرف بھاگ آتے۔ اور اگلے دن سکول جاکر دوستوں کو بڑے فخر سے بتاتے کہ کل میری قسمت پوڑی سے یہ انعام نکلا اور تم ہمارے محلہ میں آنا میں تمہیں اس چاچے قسمت پوڑی والے کے پاس لے کر چلوں گا یقینا تمہارا بھی انعام نکلے گا۔

وہ ہمارے کہنے پر ہمارے ساتھ اس چاچے کے پاس جاتا۔ اگر قسمت پوڑی سے اس کا انعام نہ نکلتا تو ہم بھی اس کی قسمت کو ہی خراب کہہ کر اپنی راہ لیتے اور اگر انعام نکل آتا تو سارا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالتے کہ دیکھو میں نے تمہیں بتا یا اس لیے تمہارا یہ انعام نکلا۔ میری اسی طرح بات مانتے رہو گے تو اسی طرح انعامات سے کھیلو گے۔ چاہے دل میں سوچتے کہ اس کا انعام نکل آیا کاش میں قسمت پوڑی خرید لیتا تو میرا ہی انعام نکلتا۔

بہرحال جوں جوں بڑے ہوتے گئے جہاں ہماری سوچ بڑی ہوئی ”قسمت پوڑیاں“ بھی بڑی ہوتی چلی گئیں۔ اورنئے نئے رنگ اورنئے نئے روپ میں ہمارے سامنے آتی گئیں۔ نہیں بدلی تو قسمت پوڑی پر اپنی قسمت کو آزمانے کی عادت نہٰیں بدلی۔ اسی طرح کامیاب ہونے پر قسمت پر خوش اور ناکام ہونے پر قسمت کو کوسنا۔

پھر سوچا تو اندازہ ہوا کہ ہمارا پورا معاشرے ہی اسی سوچ کا حامل ہے تو ہم کیسے اس قسمت قسمت ”کھیل“ سے باہر رہ سکتے ہیں۔ بس یہی دیکھا کہ جن کاجس ”قسمت پوڑی“ سے انعام نکلتا وہ تو اس کی تعریفوں کے پل باندھتا اور دوسروں کو بڑے فخر سے بتاتا۔ اور جس کا نہیں نکلتا وہ اپنی ”قسمت“ کو برا بھلا۔ کچھ نہیں کہا جاتا تو وہ اس قسمت پوڑی بنانے والے کو نہیں کہا جاتا۔ بھلا اس کا کیا قصور۔ قصور تو سارا ہماری ”قسمت“ کا ہے۔

جب مزید غور کیا تو پتا چلا کہ مختلف قسم کی ”قسمت پوڑیاں“ تو اس ملک پر حکومت بھی کر رہی ہیں۔ کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت، کبھی عوام کی اور کبھی آمر کی۔ کبھی مارشل لاء کے ذریعہ آئی تو کبھی اس نے نام نہاد انتخاب کا راستہ اپنایا۔ جب مرضی اور جس مرضی طریقہ سے ”قسمت پوڑی“ آئی نتیجہ تقریباً ایک جیسا ہی رہا۔ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ کون سی ”قسمت پوڑی“ اچھی تھی اور کون سی بری۔ کیونکہ کبھی کسی کو اچھا کہا جاتا تو اسی وقت اس کو برا کہنے والے بھی دلائل کے ساتھ اپنی بات بیان کر رہے ہوتے ہیں۔

ان ”قسمت پوڑیوں“ سے عوام کو فائدہ اتنا ہی ہوا جتنا کسی ”قسمت پوڑی“ سے ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ بھی نہیں۔ کیونکہ چار آنے خر چ کرکے ایک بسکٹ تو مل جاتا تھا اب تو کاغذ میں سے بعض اوقات وہ بھی نہیں نکلتا۔ بلکہ صورتحال تو یہ ہوگئی ہے کہ اب قسمت پوڑی خریدنے کے بھی پیسے دیے جاتے ہیں اور کاغذ کے الگ پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اور قسمت پوڑی خالی نکلنے کا جرمانہ بھی بھرنا پڑتا ہے۔ ”قسمت پوڑی“ بنانے والے اب اس کا تمام تر خرچ بھی کسی نہ کسی بہانے عوام سے ہی وصول کرلیتے ہیں۔ اس لیے ان کی تو چاندنی ہوگئی اور ہماری حالت دیدنی ہوگئی۔ نہ ان کو کوئی پوچھتا ہے اور نہ ہمیں۔ جس کی جتنی بڑی ”قسمت پوڑی“ اتنا ہی بڑا اس کا پروٹوکول۔ عدالت جائے تو جیالوں کے سائے میں۔ جیل بھی جائے تو بینڈ باجے کے ساتھ۔

ویسے قسمت پوڑی ”کھیل“ کے بہت سے ”فوائد“ ہیں :

( 1 ) اس میں کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پورا ہتمام کیا جاتا ہے کہ کسی طرح یہ ”کھیل“ کھیلنے والے تعلیم نہ حاصل کر سکیں۔

( 2 ) اس ”کھیل“ میں کسی قسم کے شعور کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ شعور نام کی کوئی چیز قریب بھی نہیں آنے دی جاتی۔

( 3 ) ناکامی کا کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ ناکام ہونے پر ”قسمت“ کا ہی قصور نکلنا ہے۔

( 4 ) اپنی ناکامی کا ذمہ وار دوسروں کو بڑی آسانی سے ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

( 5 ) ”قسمت پوڑی“ میں فائدہ وہی ہے جو حاصل ہو۔ باقی سب تو ناکام پالیسیاں ہیں۔

( 6 ) جتنا مرضی خرچ کریں اس کا کوئی حساب نہیں۔

( 7 ) جس ”قسمت پوڑی“ سے فائدہ ہو خواہ تھوڑاہی ہو اس کی تعریف لازمی کرنی ہے۔ اور ہر صورت اس کا ساتھ دینا ہے۔

( 8 ) دوسری ”قسمت پوڑیوں“ کو بے دریغ گالیاں نکالنی ہیں اور کسی صورت ان کو کامیا ب نہیں ہونے دینا۔

( 9 ) قسمت پوڑی بنانے والے، انعامات دینے والے کا ایک ہی کردارہوتا ہے۔ بلکہ کردار کی شاید ضرورت بھی نہیں صرف حصہ لینے والے بدلتے رہنے چاہیے۔

( 10 ) قسمت پوڑی بنانے والے بے حساب کما سکتے ہیں اس کا کوئی حساب نہ رکھا جاتا ہے نہ کوئی حساب مانگ سکتا ہے

( 11 ) اگر کوئی حساب مانگے تو حساب کو ہی آگ لگا دو۔ پھر بھی کوئی نہ مانے تو بیمار پڑ جاؤ اور علاج کے لیے بیرون ملک چلے جاؤں پھر نہ بندے رہے گا نہ بندے کی ذات۔

اس ”قسمت پوڑی“ کے کھیل کی پاکستانی جمہوریت کے ساتھ محض اتفاقی مشابہت ہوسکتی ہے ورنہ اصل جمہوریت تو بہت زبردست چیز ہے۔ عوام طاقت کا سرچشمہ۔ عوام خود فیصلہ کرتی ہے کہ کون ان کا حکمران ہوگا۔ جمہوریت میں عوام کے حق میں فیصلے ہوتے ہیں۔

جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ ”democracy“ کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہوکر آیا ہے۔ یونانی زبان میں ”demo“ عوام کو اور ”cracy“ حاکمیت کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔

جمہوریت کی اصطلاحی تعریف کچھ یوں ہے کہ: ”حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے“۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: ”جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں“۔

سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے : ”goverment of the people، by the people، for the people“ یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔

جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔

جمہوریت ایک بہترین نظام ہونے کے ناتے عوام پہ کچھ غیر معمولی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے لئے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ عوام روشن خیال، تعلیم یافتہ اور باشعور ہوں۔ وہ ہمہ وقت باخبر ہوں اور کسی بھی قیمت پر اپنے بنیادی انسانی حقوق پامال نہ ہونے دیں۔ وہ اپنے حقِ حکمرانی کے تحفظ کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اختلافِ رائے کا احترام کیا جائے اور منطقی استدلال پہ کامل یقین رکھا جائے۔ ریاست کے اعضا اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ریاست کی بہتری کے لئے کوشاں رہیں۔ سیاسی پارٹیوں پہ چند افراد یا خاندانوں کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ جمہوریت ہی میں ترقی و خوشحالی کا راز مضمر ہے لیکن ایسا ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوریت کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو دیانتداری کے ساتھ پورا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).