تعلیمی ایمرجنسی ناگزیر ہو چکی ہے


عصر حاضر میں قوم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم دے کر ہی دنیا سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور جو قومیں اپنے نظام تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر پاتیں ان قوموں کی بقاء چند برسوں میں ہی دوسری جدید تقاضوں سے لیس نظام تعلیم رکھنے والی اقوام کے مرہون منت ہو جاتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے پاکستان کا بھی نطام تعلیم عصر حاضر کے تقاضوں اور آنے والی جدت سے بالکل ہم پلہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں ہمارے امتیازی کاموں کی نمائندگی اس تناسب سے نہ ہے جس تناسب سے ہونی چاہیے تھی، ہم اپنے نظام تعلیم کو ناقص اور غیر مستقل پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کے اس دہانے پر لا چکے ہیں کہ اب بچت کے لئے تعلیمی ایمرجنسی کا نفاز ناگزیر ہو چکا ہے۔

ہمارے نظام تعلیم سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک سلیبس/نصاب کا وقت کے ساتھ اپ ڈیٹ نہ ہونا ہے۔ آج کے تیز دور میں جہاں 5 / 7 سال کا بچہ اپنی مدد آپ کے تحت انٹرنیٹ، سوشل نیٹ ورکس مثلاً یوٹیوب، فیس بک وغیرہ، سمارٹ فون، کمپیوٹر کے استعمال سے بخوبی واقفیت رکھتا ہے وہیں دوسری طرف ہمارا نصاب اور نظام تعلیم اس ٹیکنالوجی کی جدت تو درکنار، طلباء کو مناسب بنیادی آگاہی دینے سے بھی قاصر ہے اور یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اسی یوٹیوب اور انٹرنیٹ سے روپے بھی کمائے جا سکتے ہیں اور یہی ٹیکنالوجی آپ کے لئے بے تحاشا مواقع لئے ہوئے ہے، نصاب عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے اس نظام سے فارغ التحصیل جوان نام کے پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دقیانوسی ہیں جو سودمند ایجادات کرنے اور جدید طریقوں سے روزگار حاصل کرنے سے عاری ہیں، موجودہ آؤٹ ڈیٹڈ نصاب کی موجودگی میں اچھے کلرکس ضرور پیدا کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ نظام عالمی میعار اور بین الاقوامی ٹکر کے ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان کبھی نہیں دے سکتا۔

ہمارے نظام تعلیم کا دوسرا بڑا مسئلہ یکساں نظام تعلیم اور پالیسیوں کے تسلسُل کا نہ ہونا ہے، اپنی عوام کو تعلیم کے اعلی اور مساوی مواقع فراہم کرنا کسی بھی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے جس میں ہمارے پاکستان کو بری طرح ناکامی کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک میں بیک وقت کئی نظام تعلیم اور نصاب رائج العمل ہیں جن سے طبقات کی تفریق دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، ایک طرف دولت مند اور ایلیٹ کلاس 5 سے 10 فیصد طبقہ کے لئے بھاری فیسوں کے عوض پرائیویٹ اداروں کی شکل میں جدید تعلیم اور اعلی ماحول دستیاب ہے تو وہیں دوسری طرف کھنڈرات کی شکل پیش کرتے سرکاری سکول غریب اور مڈل کلاس طبقہ کے بچوں کو پچھلی صدی کا نصاب پڑھا رہے ہیں جس میں موجود زیادہ تر علم اب قابل عمل نہیں رہا۔

اس فرق کی وجہ سے یہی قلیل ایلیٹ طبقہ دوسرے کثیر غریب اور مڈل کلاس طبقہ پر حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے اور یہی طبقہ ایسے مسائل سے مسلسل مستفید ہو رہا ہے اور اس کے مستقل حل کا حامی نہ ہے۔ ہر نئی آنے والی حکومت بغیر کسی ریسرچ اور فیڈ بیک کے نئی پالیسیوں کا اجراء کر دیتی ہے جس کے مثبت کے بجائے منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اسی طرح مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کے لئے کوئی باقاعدہ کیریئر اور سمت نہ ہے اور یہی چیز مختلف طبقات میں خلیج کو طول دی رہی ہے۔ قومی یکساں نصاب وقت کی ضرورت ہے تاکہ درج بالا مسائل کو مؤثر انداز میں حل کیا جا سکے

ہمارے نظام تعلیم میں تیسرا اہم مسئلہ نقل مافیہ ہے، نقل ایسی چیز ہے جو انسان کی صلاحیتوں اور ذوق کو ختم کر دیتی ہے اور مزید ستم ظریفی یہ ہے ہمارے موجودہ تعلیمی سسٹم میں نقل کی حوصلہ شکنی نہیں کی جا رہی بلکہ اکثر اساتذہ خود نقل کو فروغ دے رہے ہیں، ڈسٹرکٹ رینکنگ کے چکر میں سی ای او حضرات خود ناجائز ذرائع کے استعمال کی ناصرف اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کو حفاظتی شیلڈ فراہم کرتے ہوئے مکمل بوگس کارگزاری حکومت تک پہنچائی جاتی ہے۔

پالیسی ساز زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جیسے طلباء کی کم حاضری اور ناقص تعلیمی کارکردگی کی سزا متعلقہ ٹیچر کو دی جائے گی اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف کلاسز کی بوگس 100 فیصد تک حاضری ظاہر کی جاتی ہے اور کیونکہ ساتھی اساتذہ ہی امتحانات میں نگرانی کے فرائض انجام دیتے ہیں تو وہ اپنے ساتھی ٹیچرز کو سپورٹ کرنے کے لئے ہر ممکن حد تک نقل لگوا کر اور خود پرچہ جات حل کروا کر بہترین کاغذی ریزلٹ لے آتے ہیں جبکہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ سرکاری سکولوں سے پنجم، ہشتم پاس اکثر بچوں کو املا تک لکھنا نہیں آتی ہوتی۔

نقل کے اس کلچر کی وجہ سے محنتی طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ محکمہ تعلیم میں بہتری کے لئے نقل مافیہ کا خاتمہ ناگزیر ہے، اس کا سادہ حل یہ ہے کہ محکمہ میں نیوٹرل نگران عملہ بھرتی کیا جائے جس کا تدریسی عمل سے کوئی تعلق نہ ہو مزید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرہ جات کی مدد سے پیپروں کی آن لائن نگرانی بھی کی جائے۔

اس کے علاوہ محکمہ میں کرپٹ کلرک حضرات کی کرپشن اہم مسئلہ ہے جو تنخواہ جاری کروانے، اے سی آر کی تکمیل، ٹرانسفر پوسٹنگ وغیرہ کی مد میں کرپشن کرتے ہیں اور اس کے علاوہ سکولز کے این ایس بی فنڈز میں خرد برد بھی مسئلہ ہے، ٹرانسفر پوسٹنگ کی مد میں کرپشن کو روکنے کے لیے ڈاکٹر مرادراس صوبائی وزیر تعلیم پنجاب کا آئن لائن ایپ کا اجراء احسن قدم ہے اسی طرح باقی کرپشن کی روک تھام کے لئے بھی عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اساتذہ اور طالب علموں کو آئیڈیل ماحول فراہم کیا جا سکے۔

آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم عظیم قوم بننا چاہتے ہیں تو محکمہ تعلیم میں تعلیمی ایمرجنسی لگاتے ہوئے انقابی تبدیلیاں کرنا نا گزیر ہے ورنہ ہم من حیث القوم کرپٹ بن رہے ہیں اور ہمارے نظام تعلیم میں طلباء جس ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کررہے ہیں اس سے ہماری اگلی نسل سے بھی کچھ زیادہ توقعات باندھنا بے وقوفی ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).