کیا آپ جنسی مسائل کا شکار ہیں؟


کیا آپ دن رات جنس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں؟
کیا آپ ہر شام ایک نئی پورن مووی دیکھنے کا منصوبہ بناتے ہیں؟
کیا آپ بار بار مشت زنی کرنے اور جلق لگانے سے بیزار ہو چکے ہیں؟

کیا آپ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو دوستی کے بغیر آپ سے جنسی تعلقات قائم کریں؟
کیا آپ خوفزدہ رہتے ہیں کہ کہیں آپ اپنے جنسی مسائل کی وجہ سے ذہنی توازن نہ کھو بیٹھیں؟

اگر ایسا ہی ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ ایک ایسے نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوں جسے ماہرینِ نفسیات و جنسیات HYPERSEXUALITY یا SEXUAL ADDICTION یا COMPULSIVE SEXUAL BEHAVIOR کہتے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صرف مرد ہی اس جنسی مسئلے کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے اعصاب پر جنس اور عورت سوار ہوتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ نجانے کتنی عورتیں بھی اس عذاب سے گزرتی ہیں۔ یہ نفسیاتی مسئلہ بظاہر پر لذت نظر آنے کے باوجود درحقیقیت بہت پریشان کن اور تکلیف دہ ہے۔ اس مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر مریض کسی روایتی گھرانے یا مذہبی معاشرے میں رہتا ہے تو وہ کسی سے اس کا ذکر بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اسے خطرہ رہتا ہے کہ اسے ہمدردی کی بجائے جارحانہ رویے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لوگ اسے مریض کی بجائے گنہگار سمجھیں گے اور علاج اور دوا کی بجائے سزا تجویز کریں گے۔

جب لوگ ایڈکشن کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے ذہن میں سگریٹ، شراب، منشیات اور جوا آتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جنسی مسائل کے مریض جنس کی تلاش اسی دیوانگی سے کرتے ہیں جس طرح شرابی شراب کی تلاش اور اس تلاش میں نہ صرف وہ زندگی کے بہت سے غلط فیصلے کرتے ہیں بلکہ اپنا راز چھپانے کے لیے جھوٹ بھی بولتے ہیں۔

میں نے جنسی مسائل کا شکار جن مردوں اور عورتوں کا علاج اپنے کلینک میں کیا ہے ان میں سے اکثر لوگ بچپن میں جسمانی، ذہنی یا جنسی استحصال یا تشدد کا شکار ہوئے تھے۔ اس استحصال اور تشدد نے ان کی شخصیت میں ایک کجی پیدا کی۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح کیا اور انہیں احساسِ کمتری کا شکار کیا۔ ایسے لوگوں کے لیے جنس محض محبت، چاہت اور خود سپردگی کا استعارہ بن جاتی ہے۔ وہ لاشعوری طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے نفسیاتی مسائل کا تالا جنس کی کنجی سے کھلے گا۔ وہ یہ تالا کھولنے کی بہت کوشش کرتے رہتے ہیں لیکں ناکام رہتے ہیں۔ بعض جنس سے بالکل بیزار ہو جاتے ہیں اور بعض حد سے زیادہ جنسی تعلقات قائم کرنے لگتے ہیں۔

ہم اپنے کلینک میں اپنے مریضوں کی تھیریپی کے دوران ان کی عزتِ نفس بحال کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صحتمند رشتے قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہمارے بعض مریض SEX ADDICTS ANNONYMOUS OR SEXAHOLICS ANONYMOUS جیسے سپورٹ گروپ سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔

جب سے میں نے ’ہم سب‘ پر لکھنا شروع کیا ہے مجھے بہت سے انجان لوگوں کے خطوط آتے ہیں جواینزائٹی اور ڈیپریشن جیسے نفسیاتی مسائل سے نبرد آزما ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض مرد اور عورتیں جنسی مسائل کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ میں اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کی مدد کروں۔ یہ ایک انسان دوست کا انسانیت کی خدمت کا والنٹیر ورک ہے۔

پچھلے سال جنسی مسئلے کے شکار ایک خاور نامی نوجوان (انہوں نے خود اپنا یہ فرضی نام چنا ہے ) نے مجھ سے مشورہ کیا۔ انٹرنیٹ پر ان کا مسئلہ سننے کے بعد میں نے انہیں مندرجہ ذیل مشورے دیے

1۔ آپ جنسی تعلقات سے چھ ہفتے احتراز کریں اور اپنے نفسیاتی مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔
2۔ اپنے ماضی کے تمام ناپسندیدہ اور تکلیف دہ واقعات لکھ کر مجھے بھیج دیں۔
3۔ ایک ڈائری رکھیں اور ہر ہفتے مجھے وہ ڈائری بھیجیں۔

مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ خاور نے نہ صرف میرے مشوروں کو قبول کیا بلکہ ان پر مستعدی سے عمل بھی کرنا شروع کر دیا۔

چند دن بعد ان کا پیغام آیا کہ چونکہ میں جنسی تعلقات سے احتراز کر رہا ہوں اس لیے میرے سراپا میں جنسی توانائی بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا میں روز ورزش کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا ضرور کریں۔ روزانہ ورزش سے خاور کو بہت فائدہ ہوا۔

چند ہفتوں کے بعد خاور نے مجھے ایک ڈاکیومنٹری بھیجی جس میں چند نوجوانوں نے اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح بچپن میں ان کا جنسی اور نفسیاتی استحصال کیا گیا تھا۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد خاور دو مردوں کے پاس گیا اور انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے خاور کے ساتھ بچپن میں جنسی زیادتی کی تھی۔ یہ خاور کی خوش قسمتی تھی کہ ان دونوں مردوں نے نہ صرف اس استحصال کا اقرار کیا بلکہ خاور سے معافی بھی مانگی۔ ان واقعات نے خاور کی صحت یابی میں مثبت کردارادا کیا۔

چھ مہینے کے بعد اب خاور کافی حد تک اپنے جنسی مسئلے پر قابو پا چکے ہیں اور ایک صحتمند زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے کئی اور مرد اور عورتیں جنسی مسائل کے بارے میں مشورے کر رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی صحتیابی کی کہانی مجھے دو صفحوں میں بھیج دیں تو میں ایک کالم لکھوں گا جس سے بہت سے مرد اور عورتیں استفادہ کر سکیں گے۔ میں خاور کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے مشورے پر عمل کیا اور مجھے ایک دن کے بعد ہی ایک خط بھیجا جو میں آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ بھی نا امیدی کی تاریکی میں امید کی کرن دیکھ سکیں۔
۔ ۔ ۔

خاور کا خط

محترم خالد سہیل صاحب، ۔ آپ کا میسج پڑھا تو بہت خوشی ہوئی کہ آپ نے حکم کیا کہ آپ کو اپنے علاج سے متعلق ابتدائی دنوں کے حالت لکھوں، میں خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ میں آپ کے توسط سے شاید کسی کے کام آسکوں گا۔ میرا نام خاور ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے رجوع کرنے سے پہلے میری زندگی کا فقط اک مقصد تھا۔ جنسی تسکین کا حصول! اور اِس کے لیے میں نے نجانے کتنے انتہائی قدم اُٹھائے۔ میں تقریباً انتیس 29 برسوں کا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب سے پہلی دفعہ چھ مہینے پہلے رابطہ ہوا تھا۔

چھ مہینے بیشتر میں ہر لمحے لاشعوری اور شعوری طور پر جنسی تسکین کی تلاش میں لگا رہتا تھا۔ اور میں نے اس رویے کو نارمل کنسیڈر کیا ہوا تھا۔ اور میرے پاس دلائل کا انبار تھا کہ میں ایسا کیوں ہوں؟ میں ویسے تو ہر لمحہ جنسی تسکین کی خواہش میں لگا رہتاتھا اور اس کے علاوہ میں نے کبھی کسی دوسری ایکٹیوٹی کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ بس مجبوری سے تعلیم حاصل کی اور پھر نوکری کی۔ میں نے پچھلے سالوں میں بھانت بھانت کے جنسی تجربے کیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail