جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کے پیچھے کون ہے؟


وزیر قانون فروغ نسیم کا موقف ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ’’شکایت‘‘ حکومت کے اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) سے موصول ہوئی تھی۔ تاہم، اے آر یو کے ترجمان نے واضح الفاظ میں بتایا ہے کہ اس معاملے میں اے آر یو مدعی نہیں ہے۔ اے آر یو نے آئین کے مطابق صرف یہ معاملہ وزیر قانون کو بھجوایا، اس طرح کا کوئی بھی معاملہ خالصتاً سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔

وزارت قانون کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کسی جج کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ وزارت کا کام اثاثہ ریکوری یونٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے ملنے والی شکایات کو ملک کے وسیع مفاد میں پراسیس کرنا ہوتا ہے۔ وزارت نے اے آر یو سے ملنے والی ’’شکایت‘‘ کا حوالہ دیا، جبکہ اے آر یو کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں مدعی نہیں ہے۔

معروف صحافی انصار عباسی نے دو وفاقی وزراء کے ساتھ رابطوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ایک وزیر نے واضح طور پر بتایا ہے کہ صدر مملکت ریفرنس میں لکھی گئی زبان پر ناخوش تھے اس لئے انہوں نے اس میں تبدیلی کرائی۔ اسی وزیر نے یہ بھی کہا تھا کہ اس ریفرنس کے پیچھے وزیر قانون فروغ نسیم کا ہاتھ ہے۔

روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون نے لکھا ہے کہ ریفرنس وزارت قانون میں تیار کیا گیا تھا اور ریفرنس دائر کرنے کیلئے 3 نومبر 2007ء کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے سپریم کورٹ کے سابق جج کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ تاہم صحافیوں کی طرف سے رابطے کی کوشش پر وزارتی ذریعے نے مسکرا کر کہا کہ صحافی کو اپنے ذریعے پر بھروسہ کرنا چاہئے۔

ایوانِ صدر کی جانب سے جاری کردہ وضاحت میں ریفرنس پر صدر عارف علوی کی رائے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں یہ ریفرنس صدر مملکت نے بھیجا تھا کیونکہ وہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر عمل کے پابند ہیں۔

سینئر صحافی نسیم زہرہ نے جمعرات کو ایک ٹوئیٹ میں صدر عارف علوی اور شیریں مزاری کے پرانے ٹوئیٹس کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اچھی ساکھ کی بات کی تھی۔ نسیم زہرہ نے شیریں مزاری سے سوال کیا تھا کہ مجھے امید ہے کہ آپ صدر عارف علوی سے پوچھیں گی کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

نسیم زہرہ کے ٹوئیٹ پر وفاقی وزیر شیریں مزاری نے معنی خیز ٹوئیٹ کی کہ ’’نسیم آپ کی کیا رائے ہے؟! ٹوئٹر پر خاموشی کا مطلب ہر جگہ خاموشی نہیں ہوتا!‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).