بالٹی کب گھومے گی؟


آٹھ دس برس کے تھے تو کسی بڑے نے ہمیں یہ کرتب سکھا دیا۔ ڈول یا بالٹی میں پانی بھرکرہینڈل سے پکڑواورتیزی سے اپنے گرد گھماتے جاؤ۔ برتن پر کوئی ڈھکنا نہیں اورسیدھا نہیں، لیٹی حالت میں ہے لیکن پانی برتن سے باہر نہیں گرتا۔ ہمیں لگا ہم کوئی چمتکار کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ مداری کی طرح مالٹے سے چار آنے کا سکہ بھی نکال پائیں گے یا ممکن ہے سرکس کے بازیگر کی طرح ہاتھ میں بانس پکڑے رسے پر چلنے کی داد لینا ہمارے حصہ میں بھی آجائے۔

یہ کرتب جاننے کی اکسائٹمنٹ تھی کہ ہم نے کئی ہم عمر اور اپنے سے کم عمر بچوں کے سامنے یہ کرتب دکھایا۔ حتیٰ کہ سب کو پتا چل گیا کہ اس میں کوئی کمال نہیں، یہ ہرکوئی کر سکتا ہے۔

سکول میں پہنچے تو فزکس کی جماعت میں قوانینِ حرکت پڑھ کراس کرتب کی حقیقت واضح ہوئی کہ متحرک حالت میں کسی وجود پر دو طرح کی طاقتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ ایک مرکز مائل اور دوسری مرکز گریز۔ اول الزکرچیزوں کو قوت کے مرکز کی طرف کھینچتی ہے اوردوسری مرکز کی مخالف سمت میں۔ لہذا وہ توازن جو مرکز مائل اورمرکز گریز قوتوں کے ایک دوسرے کی مخالف سمت میں زورلگانے سے پیدا ہوتا ہے وہ پانی کو گرنے سے محفوظ رکھتا ہے۔

معاشرتی علوم پڑھے تو لگا کہ اختلافِ رائے کا بھی یہی کام اورمقام ہے۔ معاشرت میں بھی مرکز مائل اور مرکز گریز خصوصیات اور کردار ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ان دو طاقتوں کا وجود تمدن میں توازن کی بنیاد بنتا ہے۔ پاکستان سمیت جہاں جہاں اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی روایت کمزور ہے وہاں سماجی سکوت کا غلبہ ہے جسے فزکس کی زبان میں انرشیا (جمود) کہا جاے گا۔ چنانچہ معاشرہ حرکی اصولوں سے عاری رہتا ہے۔

جب آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرضوں کے لئے پیکج کی ایک شکل سامنے آئی تو سابق وزیر خزانہ اورمعیشت دان ڈاکٹرحفیظ پاشا نے پیکج سے اختلافِ رائے کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئی ایم ایف سے ازسرِنومذاکراتکیے جایئں۔ یہ بات وزیرِخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ کے کام میں معاونت اس طرح کر گئی کہ وزیرِخزانہ کو ایک موقع مل گیا۔ اس بیان کا حوالہ دے کرآئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم سے بہترشرائط پرمعاہدہ کرنے کی بات دوہرا سکتے ہیں۔

گاہے فکری اختلاف معاشرت کے مختلف پہلؤوں میں مرکز گریز رحجان کی نمائند گی کرتا دکھائی دیتا ہے جو لازم نہیں کہ مرکز پیکاربھی ہو۔ اگر ہو تو صرف مرکز مائل قوت کے لئے ہی کیا اپنے آپ کے لئے بھی خطرہ ہے۔ سماج کے ظرف سے پانی چھلک گیا تو کس قوت کا وجود؟ جہاں کوئی قوت مرکز پیکارہوتی ہے وہ سماجی حرکیات ( سوشل ڈائنیمکس) میں کسی عدم توازن کا ردِعمل ہوتا ہے۔ جس کا علاج، مخالف سمت میں زور لگانے میں یعنی عدم توازن کو بڑھانے میں نہیں۔

لیکن حرکی قوتوں کے وجود کے لئے سب سے اہم بات ہے کہ ان کا اصل وجود (مادہ) تحرک سے عاری نہ ہو۔ فکری توانائی میں گریز اور مائل دونوں ہوں گے۔ بالٹی کو گھومنا ہے تو دونوں قوتوں کا وجود رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).