غمزدہ کائرہ کیلئے دعائے صبر


گاڑی ”بے آب دریا“ چناب کے پل سے گزر رہی تھی۔ کالم نگار اس زمانے میں پہنچ گیا جب دریا سے پانی سنبھالا نہیں جاتا تھااور اس کے کنارے پر کھڑی سسی گلہ گزار تھی۔ ’پار چناواں توں کیوں ڈیرہ لا لیا او مجیں والیا ‘۔ سرائیکی زبان کے شاعر اسلم جاوید نے پنجاب کی سب سے بڑی سچائی اپنی کتاب کے نام میں سمو دی ہے۔ ’میکوں آکھ نہ پنج دریائی‘۔ آج ہمارے پنجاب میں پانچ دریا کہاں ہیں؟ صدر ایوب زندہ باد۔

کالم نگار اور چوہدری لیاقت علی سندھو ایڈووکیٹ اک غمزدہ باپ قمر زماں کائرہ سے لالہ موسیٰ ان کے جواں سال بیٹے کی موت پر پرسہ دینے جا رہے تھے۔ یاد آگیا۔ کالم نگار کے مرشد پروفیسر فضل حسین کی زندگی کے آخری ایام تھے۔ فون پر بتانے لگے۔ ”اب میں واش روم کا دروازہ بھی اندر سے بند نہیں کرتا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے موت آگئی تو بیٹے کہاں تالا توڑتے پھریں گے“۔

ہم اپنی زندگی کب جیتے ہیں؟ بس بیٹوں پوتوں کی فکر میں جیتے مرتے رہتے ہیں۔ رہیں بیٹیاں اور پوتیاں؟ انہیں چھوڑیں۔ یہ بہت دردناک باب ہے۔ ’پتراں لئی جاگیر وے بابلا، دھیاں لئی پردیس‘۔ لیکن دنیا اچھوں سے کبھی خالی نہیں رہی۔ یوسف رضا گیلانی کے نانا جمال دین والی کے مخدوم الملک کتنے بڑے انسان تھے کہ ایک اک دھی کو بتیس بتیس مربعے زمین دے کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ورنہ ان کے پڑوس سندھ میں جاگیرداروں کے ہاں بیٹیوں کی قرآن سے شادی کا چلن عام تھا۔ اس طرح گھر کی جائیداد گھر میں رہ جاتی۔

کالم نگار نے یوسف رضا گیلانی کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کثرت استعمال سے گھسے پرانے کپڑوں میں دیکھا ہے۔ انہی کپڑوں میں وہ اپنے ننھیال سے آئے ہوئے مربعوں میں سے اکتیس مربعے بیچ کھانے کا یوں مزے سے ذکر کرتے جیسے کوئی بچہ اپنی جیب خرچ کی دونی کے بارے بتائے۔ پھر یہ گیلانی اڈیالہ جیل سے سیدھے وزیر اعظم ہاﺅس پہنچ گئے۔ پہلی سانس میں انہوں نے اپنی”ملکہ رانی “کا کروڑوں روپوں کا بینک قرضہ معاف کروا لیا کہ اب یہ کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ ان کے بچے ماشاءاللہ گبھرو جوان ہو گئے تھے تو ان کیلئے جاگیریں بھی ضروری تھیں۔ سو بندوبست کیا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے کمانا بچانا یوسف رضا گیلانی کی ترجیحی فہرست میں شامل نہیں تھا۔ پچھلے دنوں ملتان سے ایک تازہ خبر پہنچی ہے کہ اب ان کے ہاں آنے والی آٹھ پشتوں کیلئے طعام قیام کا بندوبست ہو گیا ہے۔ بیشک ہمارے ہاں سیاست بڑی بابرکت ثابت ہوتی ہے۔

مرشد سے واش روم، موت، تالا اور بیٹوں کے ذکر کے بعد یہ سوال پوچھنا لازم تھا۔ ”موت سے ڈر نہیں لگ رہا؟“ بے خوفی سے بولے۔ ”نہیں۔ بالکل نہیں۔ موت کیا ہے؟ اک شاعر کا کہنا ہے۔

                اک دن ڈونگی نیندر سونا                       مرنا کیہہ اے کجھ وی نئیں

پھر فون پر اور باتیں ہوتی رہیں۔ مرشد بہت بوڑھے ہو گئے تھے۔ تھک چکے تھے۔ وہ ایک ایسی زندگی کا اختتام بتا رہے تھے۔ جسے علامہ اقبالؒ کے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے :

                نے مجال شکوہ ہے نے طاقت گفتار ہے               زندگانی کیا ہے؟ اک طوق گلو افشار ہے

ہاں البتہ۔ جنہیں وہ اپنی موت کے بعد غسل خانے کے دروازے کا تالا توڑنے کی بدمزگی سے بھی بچانا چاہتے تھے، ان میں سے خدا نخواستہ کسی ادھ کھلی کلی کے کچلے جانے کا دردناک واقعہ ہوتا تو مرشد موت کی یوں تشریح نہ کر پاتے۔ پھر تووہ چیختے چلاتے کہہ اٹھتے۔ ’ہائے او موت تجھے موت ہی آئی ہوتی‘۔

گجرات سے گزرتے ہوئے کالم نگار کو برسوں پرانا واقعہ یاد آگیا۔ ان دنوں گجرات میں عدلیہ اور پولیس کے دونوں ضلعی سربراہ سید زادے تھے۔ ڈپٹی کمشنر البتہ جاٹ تھا۔ اس زمانے کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے حکم سے یہ تینوں سیشن ہاﺅس گجرات میں سر جوڑے بیٹھے تھے۔ یہ افسران دیر تک جوڑ توڑ میں مصروف رہے۔ پھر اپنے تئیں تمام بندوبست مکمل کرنے کے بعد رات گئے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ”اب صرف ایک خدشہ باقی رہ گیا ہے کہ صبح کہیں گجروں کی عصبیت نہ جاگ پڑے“۔ اس مجلس میں چوتھا شریک یہ کالم نگار تھا۔

اگلے روز لالہ موسیٰ تحصیل کونسل کا ضمنی انتخاب ہونے والاتھا۔ ان افسران کو ہر قیمت پر مثبت نتائج حاصل کرنے کا حکم تھا۔ گجروں کی عصبیت سوئی ہی کب تھی کہ اسے جاگنا پڑتا۔ پنجاب کی لوک دانش میں گجربرادری نہیں مذہب مانا جاتا ہے۔ پھر اگلے روز یوں ہوا کہ گجروں کی عصبیت تگڑی نکلی اور لالہ موسیٰ سے کائرے جو کہ گجر ہیں، جیت گئے۔

اب ہم کائرہ ہاﺅس لالہ موسیٰ پہنچ چکے تھے۔ کائرہ ہاﺅس کے در و دیواربھی سوگوار دکھائی دیئے۔ کسی جواں مرگ سے طاری افسردگی ایک عرصہ تک جواں رہتی ہے۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ غمزدہ قمر زماں کائرہ دروازے پر مہمانوں کو رخصت کررہے تھے۔ کائرہ شریف انسانوں کی اس کمیاب نسل سے تعلق رکھتے ہیں جوان دنوں ہماری سیاسی جماعتوں میں نایاب ہوگئی ہے۔ جب پی ٹی آئی میں لوگ بھاگے دوڑے چلے آرہے تھے تو یہ وضع دار آدمی پیپلز پارٹی میں رکے رہے کہ یہاں اچھے دن دیکھے ہیں، اب برے دنوں میں اسے چھوڑنا اچھا نہیں۔ آگ لگنے پر جنگل سے بھاگ نکلنا مردوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ آگ بجھانے کی کوئی سبیل ڈھونڈنی چاہئے۔ کچھ یہی سوچ کر یہ اب تک پیپلز پارٹی میں استقامت سے کھڑے ہیں۔

ورنہ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اب پیپلز پارٹی میں کچھ نہیں رہا۔ غمزدہ کائرہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھے کالم نگار نے یہ کہتے ہوئے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔ ”معصوم اسامہ کو کسی دعا کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ کے صبر اور سکون کے لئے دعا گو ہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).