تنہائی سب کی سہیلی کیوں نہیں ہوتی


ڈاکٹر خالد سہیل کا مضمون کیا تنہائی آپ کی سہیلی ہے نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی خوشی سے تنہا رہے ہیں اور وہ اس تنہائی سے لطف انداز ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان میں تخلیقی صلاحیت کا ہونا ہے ایک تخلیقی ذہن کے لیے تنہائی بہتر اور وسیع امیجینیشن کا باعث ہوتی ہے۔ یہ وہ تنہائی ہے جو انگریزی شاعر ورڈز ورتھ کے ہاں نظر آتی ہے۔ جو اس کی من کی آنکھ کو کھول دیتی ہے۔ ایسی فرصت جہاں دماغ ہر فکر سے آزاد ہو کر ان ڈیفوڈلز کا تصور کرنے لگتا ہے جو شاعر نے فرصت میں چہل قدمی کے دوران دیکھے تھے۔ اور اس کے دل کو ایسی خوشی سے بھر دیتا ہے جو اسے دنیا کی ہر فکر و پریشانی سے آزاد کر دیتی ہے۔ یہ وہ تنہائی ہے جو روشن اور تخلیقی دل و دماغ کا خاصہ ہے۔ اور ہر وہ انسان جوتخلیقی صلاحیت رکھتا ہے یہ اس کی لاشعوری خواہش ہے۔ یہ بلاشبہ خوشی اور سکون کا باعث ہے۔

لیکن کیا تنہائی ہر انسان کے لیے اسی سکون، سر خوشی اور وسیع تصور کا باعث ہو سکتی ہے؟ اور کیا یہ ہمیشہ انہیں احساسات کو ابھارتی ہے؟ تو جواب ہو سکتا ہے کہ شاید نہیں۔ انسان بنیادی طور پہ ایک سماجی حیوان ہے۔ وہ سماج سے کٹ کے نہیں رہ سکتا۔ اور ایک عام انسان جو اپنے اردگرد کے معاملات کو کسی تصوراتی اور تخیلاتی صلاحیت کے بغیر دیکھتا اور سوچتا ہے اس کے لیے تنہائی زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے۔ وجہ سادہ سی ہے کہ شاعر، ادیب یا دانشور کی تنہائی خلا کی مانند نہیں ہے وہ اس کے مشاہدات و تجرباب سے بھر پور ہوتی ہے وہ سوچ، تخیل اور تحقیق کے نئے در کھولتی ہے۔

ایک کے ساتھ جڑے اسرار کے در وا کرتی ہے۔ گویا یہ تنہائی خیالات، جستجو، مشاہدات، تجربات اور تجسس سے پرہجوم ہوتی ہے۔ جب من و دماغ اتنی باتوں سے لبریز ہو تو انسان تنہا نہیں کہلا سکتا۔ دیکھا جائے تو یہ سب بھی سماج سے انٹرایکشن کا نتیجہ ہے۔ اسی بنا پہ وجود میں آتا ہے۔ اگر سماج سے تعلق نہ ہو تو یہ سب بے معنی ہو جائے گا۔ بلکہ ختم ہو جائے گا۔

یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اکیلاپا انسان کو اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے۔ یہ موجودہ دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ انسان کو اپنے اردگرد ایک ہجوم چاہیے بلکہ اسے ان لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس سے محبت کرتے ہوں جن سے اسے خود کو محبت ہو۔ جذباتی وابستگی، احترام اور قربت انسان کی ضرورت ہے۔ پھر ذہنی طورپہ قریب لوگ بھی از حد ضروری ہیں۔ پہلی صورت میں خونی رشتے اور دوسری میں دوست احباب انسان کو چاہیے ہوتے ہیں۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ انسان کو لمس کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی لمس چاہے وہ مصافحے کی صورت میں ہو، معانقے کی، دوستانہ انداز میں ایک دوسرے کو چھونے کی یا رومانوی تعلق کی شکل میں۔ بہت سے احساسات جو الفاظ کی صورت نہیں کہے جا سکتے وہ کسی کو پیار سے چھو کے ہمدردی میں گلے لگا کے، ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کے لمس کے ذریعے پینچائے جا سکتے ہیں۔ یہ نفسیاتی طور انسپایریشن کا باعث بنتے ہیں۔

سوچ بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ وہ لوگ جو اولڈ ایج ہاوس میں رہتے ہیں گو کہ وہ تنہا نہیں ہوتے لیکن من ہی من وہ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ میرا اس حوالے میں ذاتی تجربہ ہے کہ ان لوگوں کو میری طرح کے اجنبی لوگ بھی بے تحاشا اپنے لگتے ہیں۔ ان میں مجھے سب سے زیادہ محبت اور شکر گزاری ان افراد کی آنکھوں میں نظر آئی جن کے ساتھ بیٹھ کے کچھ وقت گزارا اور بات چیت کی۔ مجھ سے بہت اپنایت سے پوچھا گیا پھر کب آوں گی۔ اس سب کے پس منظر میں سماج، اولاد یا رشتہ داروں سے شکوہ شکایات سے زیادہ تنہائی کا احساس کار فرما تھا کہ کوئی دوگھڑی ہمارے ساتھ بیٹھے، گلے لگے اور چند باتیں سن لے۔ اسی طرح کی تنہائی کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اکیلے رہتے ہیں۔ جنہیں وہ لوگ میسر نہیں ہوتے کہ جن سے وہ دل کی بات کہہ سکیں۔ ڈپریشن اور مایوسی کی بڑی وجوہات میں تنہائی ایک کہ آپ اپنی بات کسی سے نہ کہہ سکیں، من کا بوجھ ہلکا نہ کر سکیں۔

دیکھا جائے تو تخلق کار ہو یا عام انسان اسے سماج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔ فرق صرف اتنا ہی ہے کہ ایک مثبت سوچ رکھنے والا انسان یہ بات سمجھتا ہے اور اس پہ عمل کر سکتا ہے کہ اسے اپنا ٹائم مینجمنٹ کیسے کرنا ہے۔ تنہائی کو یاسیت کا لبادہ بنا کے نہیں اوڑھنا بلکہ اس سکون کے وقت میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنی ہے۔ اور ایک حالات سے پریشان، منفی سوچنے یا ان ٹرینڈ انسان یہ بات نہیں سمجھ سکتا نتیجتا وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہر حال دونوں صورتوں میں سماج سے تعلق اہم ہے اگر یہ تعلق نہ ہو تو سب بے معنی ہے یہ انسان کی جذباتی اور نفسیاتی ضرورت ہے۔ تنہائی تب ہی سہیلی یو سکتی ہے جب وہ اپنے ساتھ سوچ، خیال، احساس، جذبات اور تصورات کو لے کے چل رہی ہو۔

اسی بارے میں: کیا تنہائی آپ کی سہیلی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).