افغان جہاد، ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟


امریکہ افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے یہ بات اب نہ مفروضہ ہے اور نہ ہی افواہ۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان سے مذاکرات جاری ہیں اور ان مذاکرات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طالبان کو ایک دہشت گرد گروہ کی بجائے ایک باضابطہ طاقت تسلیم کر لیا گیا ہے۔

زلمے خلیل زاد، طالبان کے امیر اور نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، دیگر اتحادی ممالک بھی طالبان کو بہلانے پھسلانے کے لیے میز پر بیٹھے ہیں۔

حال ہی میں ہونے والے لویا جرگے کی صدارت بھی عبدالرب رسول سیاف نے کی جو مجاہدین کمانڈر تھے۔ اس جرگے کے ایک فیصلے کے مطابق افغان طالبان کو رہا بھی کیا جا رہا ہے۔ روس کے ٹوٹنے کے بعد جس نیو ورلڈ آرڈر کی کہانی سنائی جا رہی تھی اس کا پہلا ایکٹ ہم دیکھ چکے۔

طالبان

ویت نام کی جنگ سے بھی زیادہ بے مقصد ایک جنگ۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے کے اہداف کیا تھے؟ امریکی سر زمین پر القاعدہ کے حملوں کو روکنا؟ اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے مارنا؟ ملا عمر کی حکومت کا خاتمہ؟ روس کے پڑوس میں جنگ جاری رکھنا یا دنیا میں یوں ہی اپنی دادا گیری قائم رکھنا؟

18 سال جاری رہنے والی اس جنگ میں امریکہ نے کیا کھویا کیا پایا؟

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب پانچویں جماعت کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کے دوران، ’انخلا‘ کا لفظ املا کے لیے سکھایا گیا۔ جملہ کچھ یوں تھا، ’افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا۔۔۔` وغیرہ وغیرہ۔

روسی فوج چلی گئی، ایسے ہی جیسے برطانوی فوج چلی گئی تھی۔ امریکی فوج آئی ایسے ہی جیسے روسی فوج آئی تھی۔ جن لوگوں نے کابل کے قہوہ خانوں میں بیٹھے روسی ٹینکوں کو بازار میں گھستے دیکھا تھا، انھی کی آنکھوں کے سامنے اپاچی آئے، ڈیزی کٹر بم برسے، ڈرون حملے ہوئے، تورا بورا کی بمباری ہوئی اور صرف کیلنڈر تبدیل ہوتے گئے۔

طالبان

امریکہ نے شاید اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ شاید اس لیے کہ اسامہ بن لادن کی موت ایک مشکوک صورت حال میں ہوئی نہ اس کی لاش ملی اور نہ ہی اس کی تدفین ہوئی۔ سنا یہی کہ اس کی لاش سمندر برد کر دی گئی۔

ایک ایسا شخص، جس کو سزا دینے کے لیے ایک 18 سال طویل جنگ چھیڑی گئی، جب ہاتھ آیا تو اس تمغے کو یوں سمندر برد کرنا، کچھ سمجھ نہیں آتا۔

امریکی سرزمین پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی روک تھام کا یہ حال ہے کہ حالیہ ملاقاتوں میں زلمے خلیل زاد یہ ہی یقین دہانی چاہ رہے ہیں کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکہ پر دہشت گرد حملے نہ کیے جائیں۔

بات گھوم پھر کے وہیں آ جاتی ہے کہ بات اگر مذاکرات ہی سے حل ہونا تھی تو یہ مذاکرات 18 برس پہلے کیوں نہ کیے گئے؟

اس جنگ کا ایندھن بننے والے افغان، پاکستانی اور امریکی، سب ہی انسان تھے۔ ان سب انسانوں کا خون کس کے سر جائے گا؟

اسلامی شدت پسندی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں یہ جنگ کتنی معاون ثابت ہوئی یہ دیکھنے کے لیے سنہ 2001 میں موجود اسلامی عسکریت پسند جماعتوں اور آج پائی جانے والی جماعتوں کو دیکھ لیں، جواب سامنے موجود ہے۔

طالبان

ہیبت اللہ اخونزادہ نے زلمے خلیل زاد سے حالیہ ملاقات کے بعد واشگاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ جہاد جاری رکھیں گے اور اپنی 40 سالہ جدو جہد کو نہیں بھولیں گے۔

اس ساری مارا ماری میں ہوا یوں کہ پاکستان، جو کبھی امریکہ کی فرسٹ لائن آف افینس اینڈ ڈیفنس ہوا کرتا تھا، جانے کیوں مکھن میں سے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا۔ مذاکرات کا یہ عمل ون ٹو ون ہو رہا ہے۔

طالبان، پاکستان سے ناراض ہیں اور اس جنگ میں انھوں نے پاکستان کو بھی جی بھر کے رگیدا ہے۔ اب ایسا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد، طالبان نہ صرف ایک عسکری بلکہ سیاسی قوت بھی مان لیے جائیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ اگلی افغان حکومت ہی ان کی ہو۔

40 سال ادھر پاکستان میں بھی گزرے۔ وہ وقت جس میں ہمیں دو نسلوں کی تربیت کرنا تھی، ہم کافر کافر کھیلتے اپنی جوان نسل کو پرائی جنگ میں جھونکتے اپنی جیبیں بے برکتی کی کمائی سے بھرتے آنے والے خوشگوار دنوں کے تصور میں کھوئے رہے۔

یہ نہ سوچا کے قومیں کرائے کے غنڈے بنانے سے نہیں بنتیں۔ جس نسل کو پاکستان کو ترقی دینا تھی وہ نسل کلاشنکوف کلچر کی نذر ہوئی۔ اس سے اگلی نسل اپنے تشخص سے خائف ہو گئی۔ کچھ شدت پسند ہو گئے، باقی کھسیا کھسیا کے اپنے مسلمان ہونے کی صفائیاں دینے لگے۔

امریکہ کی طرح ہم بھی آج وہیں کھڑے ہیں جہاں افغان جہاد کا جن بوتل سے باہر نکالنے سے پہلے کھڑے تھے۔

کشمیر کا مسئلہ، انڈیا کے ساتھ پانی کی تقسیم اور دیگر سرحدی مسائل، اندرونی خلفشار اور علیحدگی پسند تحریکیں۔

40 سال کرائے کا غنڈہ بننے کے بعد بھی گلے میں کشکول ہے اور منہ پر کالک۔ مقام تو رونے کا ہے لیکن جانے کیوں یہ سب سوچ کے ہاسا ہی نکل جاتا ہے۔

ایک شعر ذہن میں آ رہا ہے، آپ بھی سن لیجیے۔

تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے

ہم نے کیا کھویا، ہم نے کیا پایا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).