خواتین کا رمضان


دو سال قبل ’خواتین کا اسلام‘ نامی رسالہ میری نظروں سے گزرا۔ رسالے کا مقصد خواتین کو گھر کی چار دیواری میں محدود کرنا اور مردوں کو دیکھ کر فٹ سے بے ہوش ہونا سکھانا تھا۔ ایک طویل عرصہ باقاعدگی سے پڑھتی رہی، اثر نہ ہوا۔ وہی ادارہ ایک اور رسالہ ’بچوں کا اسلام‘ کے نام سے بھی شائع کیا کرتا تھا۔ دو چار بار پڑھا پھر چھوڑ دیا۔ ویسے بھی جس عمر میں وہ رسالہ پڑھنا شروع کیا تھا، اس میں اپنے آپ کو بچہ سمجھنا ایک بے وقوفی تھی۔

سوچا ’مردوں کا اسلام‘ پڑھا جائے۔ معلوم ہوا کہ ادارہ ایسا کوئی رسالہ شائع ہی نہیں کرتا۔ شدید دکھ ہوا۔ مرد بے چاروں کے ساتھ ہر پلیٹ فارم پر زیادتی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے مردوں کو اسلام سکھانے یا ان کے اخلاقی قد میں اضافہ کرنے کے لیے کسی اور نام سے رسالہ شائع کیا جاتا ہو لیکن اس سیریز کو خواتین اور بچوں تک ہی محدود رکھنا، میرے نزدیک مردوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ مدیر کو اس بارے کچھ سوچنا چاہیے۔

جس طرح خواتین کا ایک الگ اسلام ہوتا ہے اسی طرح ان کا رمضان بھی الگ ہوتا ہے۔ رمضان کا خیال آئے تو برکت اور رحمتیں ذہن میں آتی ہیں۔ خواتین کے لیے معاملہ بالکل الگ ہے۔ ان کا رمضان باورچی خانے سے شروع ہو کر باورچی خانے میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ پہلے روزے کی سحری سے قبل باورچی خانے میں داخل ہوتی ہیں اور پھر عید کے برتن دھو کر ہی باہر نکلتی ہیں۔

سحری، افطاری اور کھانے کے چکر میں ان کی نیند بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یہ آدھی رات میں اٹھ کر سحری بناتی ہیں اور فجر کے بعد کہیں جا کر چند گھنٹوں کے لیے سوتی ہیں۔ پورا مہینہ اسی روٹین کے ساتھ کام کرنا ان کی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ کچھ خواتین سحری بنانے کی پریشانی میں اس سے پہلے نہیں سو پاتیں۔ سحری کے بعد بھی انہیں چند گھنٹے سے زیادہ کی نیند میسر نہیں ہوتی کہ گھر کے مردوں نے نوکری پر جانا ہوتا ہے اور انہیں اپنا موزہ ڈھونڈنے کے لیے گھر کی خواتین کی ضرورت ہوتی ہے۔

ریستوران کے بیرے کو تو بری سے بری سروس پر بھی چند سو روپے ٹِپ مل جاتی ہے، گھر بھر کو روزہ رکھوانے والی خاتون کو خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

فیس بک پر ایک پیج ’نیک پروین سنڈروم‘ کے نام سے کافی مشہور ہو رہا ہے۔ یہ پیج ایک ایسی خطرناک بیماری سے متعلق ہے جو پاکستان میں کئی خواتین اور مردوں کو لاحق ہے۔ اتنی ہمیں خود نیک پروین بننے کی خواہش نہیں ہوتی جتنی ہمیں دوسروں کو بنانے کی ہوتی ہے۔ اس پیج کو چلانے والی خاتون بھی نیک پروین سنڈروم میں مبتلا ہیں۔ یہ ویڈیوز میں اپنے چہرے کو تولیے سے چھپائے شوہر اور سسرال کی تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہوتی ہیں۔

ایک ویڈیو میں کہنے لگیں کہ آج کھانے میں چکن کڑاہی بنائی جو شوہر کو بے حد پسند آئی۔ اس کڑاہی کی تعریف میں انہوں نے ایک جملہ کہا۔ ان کا بس یہی ’آئی لو یو‘ ہو گیا۔ ہماری خواتین بھی گھر کے مردوں کو پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ اور لسی کے گلاس غٹا غٹ اتارتے دیکھ کر اپنا خون بڑھتا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ ان کا بھی یہی ’آئی لو یو‘ ہو جاتا ہے۔

افطار کے دعوت نامے ان کے کام میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ گھر کے بڑے زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے چکر میں ہر طرف دعوتیں بانٹتے پھرتے ہیں۔ کچن میں کام خاتونِ خانہ کا بڑھ جاتا ہے جبکہ ثواب ان کی جھولی میں چلا جاتا ہے۔

آخری عشرے کے ساتھ بازار کے چکر بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ سحری اور افطاری کے انتظام کے ساتھ ساتھ بازار جانا اور سب کی من پسند اشیاء خریدنا ان کے کاموں میں دس گنا اضافہ کر دیتا ہے۔ ایسے میں ان خواتین کو داد دینی چاہیے جو اپنی ان دنیاوی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دینی ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہیں۔ ورنہ اس قدر کام کے بعد کس میں ہمت ہے کہ نفلی نمازیں ادا کرے، وظائف پڑھے یا رات رات بھر جاگ کر استغفار کرے۔ تھکی ہاری چند گھنٹوں کے لیے بستر پر لیٹتی ہیں تو یاد آتا ہے کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے تصور میں دوزخ جیسا گرم باورچی خانہ آتا ہے اور اسے اپنی قسمت سمجھتی آنکھیں موند لیتی ہیں۔ ان کا رمضان ایسا ہی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).