کچھ خریداری کے بارے میں


خریداری کرنا عورتوں کا محبوب مشغلہ ہے جب کہ دکانداروں کے علاوہ اکثر مرد خریداری کرنے کا سن کر ہی گبھرا جاتے ہیں۔ ہماری ایک یونیورسٹی فیلو کا خیال تھا کہ مردوں نے اپنے لئے خریداری کرنے کے دروازے خود بند کیے ہیں۔ جب خود سرخ رنگ نہیں پہن سکتے تو پھر ہمارے لئے سرخ رنگ کے کئی شیڈز بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگرچہ اس خاتون کے پاس سرخ رنگ کا کوئی جوڑا نہیں تھا لیکن اس نے بات گہری کی تھی۔ ہمارے دوست فراز نے اسے بتایا، ”بی بی ہم بھی سرخ رنگ پہنتے ہیں لیکن ذرا چھپا کر“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی پینٹ اوپر کی تو اس کے موزے واقعی سرخ رنگ کے تھے۔

یونیورسٹی کی بات سے یاد آیا اصل خریداری تو کالج دور کی ہوتی ہے۔ ایک نے پتلون خریدنی ہو تو پانچ چھ دوست ساتھ ایسے ہی چل پڑتے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی اپنی پسند — یوں شیر دل، فقیر حسین کی پسند کی پتلون خرید لیتا ہے اور پھر پہن کر شبیر شبیر لگنے لگتا ہے۔ وہ دوست جو خریداری کا پانچ فیصد ٹریٹ پر خرچ کرواتے ہیں وہ بڑے ہوکر کسی انجنئیرنگ کے محکمے میں ملازمت کرتے ہیں یا پھر ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔

سیانے کہتے ہیں جو چیز خریدنے پر ساتھ کوئی تحفہ مفت مل رہا ہو وہ بالکل نہیں خریدنی چاہیے۔ بات بھی صحیح ہے، اب دیکھیں حضرت آدم کو مفت کی چیز کتنی مہنگی پڑی کی ہم ابھی تک جنت واپس نہیں جا سکے۔ اب تو خیر دنیا میں ہم اتنے گم ہوچکے ہیں کہ خود کش حملہ آور اور تیز رفتار موٹر سائیکل سوار کے علاوہ کسی کو جنت جانے کی کوئی خاص جلدی بھی نہیں۔ جنت میں خریداری کا خرچ بھی ستر گنا ہو جانا ہے، وہاں ہر جنتی کو ستر حوریں جو ملنی ہیں۔ جن کی یہاں دو بیویاں ہیں وہ وہاں فائدے میں رہیں گے ان کا خرچ صرف پینتیس گنا بڑھے گا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ جنتیوں کا خرچ جنت میں بالکل نہیں ہونا اور شاید اسی لئے اسے جنت کہتے ہیں۔ الیکٹرانکس کا سامان وہاں ملنا نہیں کیونکہ سب گورے تو دوزخ میں ہوں گے ۔ ”ایپل“ کے آئی فونز اور لیپ ٹاپ ملیں گے نہیں اور سیب مفت ہوں گے ۔ رہ گیا کاسمیٹکس، تو حوروں کو اس کی کیا ضرورت؟ حور نے بھی اگر پاوڈر لگا کر ہی حور لگنا ہے تو پھر فائدہ؟

جس طرح جوتوں کی دکان پر جائیں تو رش دیکھ کر لگتا ہے لوگوں کو جوتوں کی کتنی ضرورت ہے، اسی طرح سرخی پاوڈر کی قیمتیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے آج کل خوبصورتی کتنی مہنگی پڑتی ہے۔ آج کے دور میں خوبصورت وہ ہے جو اچھے پارلر سے میک اپ کروائے اور بدصورت وہ ہے جو میک اپ کے بعد منہ دھوئے تو ”کیرالہ“ کی لگے۔

خریداری کرنے میں حد درجہ احتیاط لازم ہے۔ ہمارے ایک دوست کو سر میں خشکی تھی اور اس کے بال بھی پتلے تھے۔ وہ ان دو مسائل کے حل کے لئے دو مختلف قسم کے شیمپو خرید لایا۔ دونوں شیمپو ایک ساتھ استعمال کرنے کی وجہ سے وہ گنجا ہوگیا۔ ہم نے کہا شکر ادا کرو کم از کم خشکی سے تو تمہاری جان چھوٹی۔ خرچ بھی کم ہوگیا کہ شیمپو کی چھوٹی بوتل اب چھ ماہ نکال جاتی ہے۔ اس کی تھوڑی آمدن بھی ہوگئی اس کی کنگھی ہمارے ایک اور دوست نے خرید لی۔ جمیل تو اس کا آئینہ بھی خریدنا چاہتا تھا لیکن وہ مانا نہیں۔ کہنے لگا اچھے وقتوں کی کوئی تو یاد ساتھ رہنی چاہیے۔

مزیدار خریداری تو ان کی ہوتی ہے جو گھر سے دال چاول خریدنے نکلتے ہیں اور کپڑے خرید کر واپس آجاتے ہیں۔ ہمارے محلے کے ایک بزرگ جنہیں ہم سب چاچا کہتے ہیں وہ بھی اسی طرح کے ہیں۔ اگر انہوں نے گھر کے کیے سبزی لینی ہو تو ٹوتھ پیسٹ اور صابن خریدنے کا ارادہ کرکے نکلتے ہیں۔ مشہور ہے کہ وہ ایک جنازے کی ساتھ جارہے تھے تو رستے میں نظر آنے والی ایک لڑکی کو شادی کے لئے پسند کرلیا۔ بہت سے لوگ اس بات پر یقین نہیں کرتے لیکن جن لوگوں نے چاچی کو دیکھا ہوا ہے وہ اس بات کی صداقت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب سے چاچا بوڑھے ہوئے ہیں انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ یہ نہ ہو کہ آخرت میں ان سے پوچھا جائے کہ جنت جانا چاہتے ہو یا جہنم؟ اور وہ غلطی سے جہنم کہ جائیں۔ محلے کے بزرگ انہیں سمجھاتے ہیں کے تمہاری ساری زندگی ہمارے سامنے ہے، تم سے یہ سوال بالکل نہیں ہونا۔ تم نے زندگی میں ایک آدھ بھی کوئی اچھا کام کیا ہوتا تو اور بات تھی۔

کار چوری اتنی عام ہو چکی ہے کہ کئی لوگ گھر سے اپنی گاڑی پر خریداری کرنے گئے اور واپس گھر رکشہ پر آئے۔ ہمارے ایک جاننے والے کی کار پچھلے دنوں ہی بازار سے چوری ہوئی ہے۔ ان کے پاس اب گاڑی کی چابی کی علاوہ اس کی کوئی نشانی باقی نہیں رہی۔ وہ آج کل اپنے پاس سے گزرنے والی ہر کار کو غور سے دیکھتے ہیں کہ یہ ان کی کار ہی نہ ہو۔ ہم نے ان سے پوچھا، ”آپ کی گاڑی چوری ہوئی ہے یا خود ناراض ہوکر گئی ہے؟ “ کہنے لگے، ”چور لے کر گئے ہیں۔ “۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر بھول جائیں کہ آپ کہ اردگرد چور آپ کی کار لے کر آئے گا۔ مت جی کو ہلکان کریں۔ ان کو صبر تو قدرت ہی دے سکتی ہے ہم تو بس نفسیاتی مدد ہی مہیا کرسکتے ہیں۔ اس اتوار کو وہ اپنی بیگم کے ساتھ ہمارے گھر آئے تو بتانے لگے میری بیگم نے یہ جو سوٹ پہنا ہوا ہے یہ گیارہ لاکھ پانچ سو روپے کا ہے۔ ہم نے استفسار کیا اس میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ انہوں نے بتایا جس دن گاڑی چوری ہوئی اس دن ہم یہی سوٹ لینے بازار گئے تھے۔ اس لئے گیارہ لاکھ گاڑی کی قیمت بھی اس میں ڈالی ہے۔ کیا بات ہے۔

ایک مشورہ ہے کی بازار جائیں تو اپنی گاڑی کسی موٹر سائیکل کے ساتھ بالکل کھڑی نہ کریں۔ آج کل کے چائنہ کہ موٹر سائیکل اتنے شرارتی ہیں، جب بھی ان کے مالک انہیں نکالتے ہیں، ساتھ کھڑی کار کو ہمیشہ چھو کر نکلتے ہیں۔ نیت جیسی بھی ہو کار کو داغ ڈال ہی جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی شخص کو کار کے ساتھ پھنس کر موٹر سائیکل نکالتا دیکھیں تو خدائے بے نیاز کے مشکور ہوا کریں جس نے انسان کو سٹیل کا نہیں بنایا۔ نہیں تو وہ جس طرح کار کے ساتھ رگڑ کھاتا ہے، کار کا بیڑہ غرق ہو جانا تھا۔

خریداری کے بعد سب سے خوش وہ شخص ہوتا ہے جو وہ چیز بیس روپے کی خرید لائے جو دکاندار پچاس روپے سے کم دینے پر آمادہ نہ ہو۔ ایسا شخص کبھی کبھار سخت ڈپریشن کا شکار بھی ہوجاتا ہے جب اسے گھر آکر معلوم ہوتا ہے کہ ماموں وہی چیز پچھلے ہفتے اسی دکان سے دس روپے کی لائے تھے۔ اچھی خریداری کرنا ایک آرٹ ہے جب کہ کنجوس شخص کے لئے خریداری کرنا سائنس سے کم نہیں۔ ویسے دو کنجوس مل کر بہت اچھی خریداری کرلیتے ہیں۔ ایک اگر سویٹنر خریدنے لگتا ہے تو دوسرا یہ کہ کر روک دیتا ہے کہ کوئی ضرورت نہیں سردیاں ختم ہونے میں بس ڈیڑھ دو ماہ ہی تو رہتے ہیں۔ دوسرا مفلر خریدنے لگتا ہے تو پہلا منع کر دیتا ہے کہ ابھی تم نے چند سال پہلے ہی تو لیا تھا۔ ابھی اس کا گہرا نیلا رنگ، آسمانی ہوا ہے جب تک مکمل سفید نہ ہو جائے فضول خرچی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر میں دونوں اس عہد سے گھر خالی ہاتھ جاتے ہیں کہ اگلی دفعہ بھی اگٹھے خریداری کرنے آئیں گے۔

بازاروں میں گھومنے والے لوگ ضروری نہیں خریداری کرنے ہی بازار گئے ہوں۔ جو لوگ پانچ، چھ بچوں کے ساتھ بازار جاتے ہیں ان میں اکثر کا مقصد صرف رش ڈالنا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں چند ایسے جمہوری خاندان بھی ہیں کہ باپ نے شرٹ لینی ہو تو سب سے چھوٹے بچے تک سے رائے لی جاتی ہے کہ کیسی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ضروری نہیں کہ اس کی رائے کو اہمیت بھی دی جائے۔ جمہوریت کا یہی تو حسن ہے کہ چھوٹے بندے کی رائے کو کسی بھی وقت رد کیا جاسکتا ہے۔

محمد عامر الیاس
Latest posts by محمد عامر الیاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).