نواز شریف، محسن داوڑ، علی وزیر اور جسٹس فائز عیسٰی وغیرہ


کون جانتا تھا کہ 21 مارچ 2009 کو ن لیگ اور وکلا کے ساتھ باہم مل کر جناب افتخار محمد چودھری کو ایک فیصلہ کن احتجاجی جلوس کے نتیجے میں بحال کروانے والے نواز شریف آج پابندِ سلاسل اور جناب عمران خان وزارتِ عظٰمی کی کرسی پر متمکن ہو کر اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال وہی غلطی کریں گے جو جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر نے اقتدار پر قابض ہونے کے آٹھ سال بعد کی تھی۔ عوام کو یاد ہوگا، دو برس پر پھیلی ہوئی وکلا تحریک میں بے شمار وکیلوں نے دھماکوں اور آتشزنی کے واقعات میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

کراچی میں ہونے والا 12 مئی کا سانحہ اسی تحریک کے دوران میں پیش آیا جب مشرف اور اس کے حواریوں کے اشارے پر ایم کیو ایم جیسی فاشسٹ پارٹی کے عسکری ونگ نے کراچی کی سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں کو بے گناہ انسانوں کے خون سے نہلا دیا تھا اور ادھر سفاک ڈکٹیٹر اس خون ریزی کو طاقت کا اظہار کہہ کر مکے لہرا رہا تھا۔ تاریخ نے دیکھا کہ افتخار چودھری نہ صرف بحال ہوئے بلکہ اس کے بعد چار سال تک جیوڈیشل مارشل لا لگائے رکھا جس کے دوران پی پی کو اپنے وزیر اعظم کی قربانی بھی دینا پڑی۔ جناب افتخار چودھری کے بعد کے فیصلوں پر بھرپور تنقید کی گئی اور عدلیہ بحالی کے سرخیل اور روحِ رواں جناب اعتزاز احسن نے بھی اپنے ممدوح چیف جسٹس پر کھلے الفاظ میں تنقید کی۔

تاریخ آج پھر اسی موڑ پر کھڑی ہے۔ ہماری عدلیہ کی محدود اور سلیکٹڈ آزادی آج پھر شدید خطرے سے دوچار ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ پر ایک سخت گیر ڈکٹیٹر نے کاری وار کیا تھا اور چیف جسٹس سمیت پچاس ججوں کو غیر فعال کر کے نظر بند کر دیا تھا اور آج یہی کام تخلیق کاروں اور فلم نیا پاکستان کے پروڈیوسروں، ہدایت کاروں کے ذریعے ایک سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی وزیر اعظم سے لیا جارہا ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی کو ٹھکانے لگانے کے بعد جناب قاضی فائز عیسٰی جیسے حریت کیش، بے خوف اور نڈر جج کا آمدن سے زائد اثاثوں اور ملک سے باہر اثاثوں کا کیس بنا کر آرٹیکل 109 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا گیا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ جناب فائز عیسٰی کا اصل مسئلہ ناجائز اثاثے نہیں بلکہ ان کا اصل قصور ان کی جرات رندانہ، بے باکی اور ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فیصلے دینے اور بات کرنے کی ہے۔ میمو گیٹ سکینڈل ہو یا فیض آباد دھرنوں کے خلاف دیے جانے والے فیصلے ;جسٹس قاضی فائز نے بے مثال جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز 2024 میں 13 ماہ کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے ہوں گے جب ملک میں عام الیکشن ہو رہے ہوں گے۔

کیونکہ 2024 الیکشن کا سال ہے اگر یہ حکومت حسن اتفاق یا سوئے اتفاق سے اپنی مدت پوری کر لیتی ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کو لانے والے ہر حال میں اپنے بچے جمہورے کو مزید پانچ سال کے لیے ملک پر مسلط کرنے کا عزمِ صمیم کیے ہوئے ہیں اس لیے وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ جسٹس فائز جیسا مردِ جری و رجلِ حر چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھ کر ان کی منصوبہ بندی کو چیلنج کر سکے۔

آج ہی تخلیق کاروں نے پیمرا کے ذریعے جسٹس فائز کے کیس کو ٹی وی چینلز پر زیرِ بحث لانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اگر سرسری اعتبار سے بھی جائزہ لیا جائے تو موجودہ سیٹ اپ قائم کرنے والوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ کسی اختلاف رائے کرنے والے اور اصولوں کی بنیاد پر کسی مؤقف پر کھڑے رہنے والے کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرنا۔ اس سلسلے میں میاں عاطف سے لے کر ایڈیشنل اٹارنی جنرل تک بیسیوں مثالیں ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ ادھر کسی نے لاڈلوں کے لاڈلے سے اختلاف کی جرات کی ادھر جادو کی ”چھڑی“ حرکت میں آئی اور بندہ فارغ۔ اکثر اوقات لاڈلے کو بھی اپنے بندے کی فراغت کا پتہ میڈیا کے ذریعے لگتا ہے۔

اس سے پہلے ن لیگ اور نواز شریف کے خلاف کرپشن، لوٹ مار اور چوری چکاری کی منظم و مربوط مہم چلائی گئی۔ سپریم کورٹ کے مخصوص ججوں نے ان کے مقدمات کی سماعت کی۔ سماعتوں کے دوران میں ان ججوں کے ذریعے مخصوص ریمارکس دلوئے گئے۔ منتخب وزیر اعظم کو سیسلین مافیا اور گارڈ فادر کہا گیا۔ میڈیا ٹرائل کیا گیا اور جب فضا بن گئی تو نیب اور اعلٰی عدلیہ کے ذریعے ان کے خلاف پے در پے فیصلے دلوائے گئے جس کے نتیجے میں وہ آج جیل میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

محسن داوڑ، علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کا قصور بھی یہی ہے کہ وہ لا ڈلوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے تھے اور اپنے لوگوں کے حقوق کی بحالی پر مصر تھے۔ جسٹس قاضی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ وہ بطور جج اپنے ضمیر اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے دینے کے عادی ہیں مگر لاڈلوں اور تخلیق کاروں کو ہر جگہ اور ہر ادارے میں سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی لوگ چاہییں۔ ایسے میں نواز شریفوں، محسن داوڑوں اور جسٹس فائز جیسے لوگوں کا یہی انجام ہوتا نظر آرہا ہے۔ بقول احمد فراز

جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھا سو اب یار کرے ہے

صدر مملکت نے یہ کیس اس وقت جوڈیشل کونسل میں بھیجا ہے جب آرمی کے دو افسران اور ایک سویلین کو غداری کے مقدمے میں سزائیں دی گئیں۔ اس ”حسنِ اتفاق“ اور ”اہتمام“ کا مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ عوام کو باور کرایا جاسکے کہ جب فوجی افسران کو اتنی کڑی سزائیں دی جا سکتی ہیں تو سویلین کیا خلا سے آئے ہیں جن سے پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔ کاری گروں نے کمال مہارت سے اس ”حسنِ اتفاق“ سے جسٹس قاضی فائز کیس پر عوامی اتفاقِ رائے کے حصول کی کوشش کی ہے مگر عوام اب کاری گروں اور تخلیق کاروں کے ایسے ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔ آرمی سویلین کیسوں میں ادنٰی درجے کی مماثلت اور توازن اسی وقت پیدا ہو سکے گا جب نواز شریف کے مقابلے میں جنرل مشرف کو بھی آزمائش کی ویسی ہی بھٹی سے گزارا جائے گا، جس سے نواز شریف گزر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).