آج کل ریاست مدینہ کے دارالحکومت میں کیا چل رہا ہے؟


گزرے روز ایک دوست کے ساتھ اسلام آباد میں واقع ایک بڑے شاپنگ مال میں جانا ہوا۔ جانے کا مقصود عید کی خریداری نہیں بلکہ ونڈو شاپنگ اور قیمتوں کی جانچ کرنا تھی کہ آیا عید کے لیے ہم کوئی کُرتا وغیرہ لینے کی استعداد بھی رکھتے ہیں کہ نہیں۔

ہم ایک دکان میں گئے تو سیلز مین نے مجھے پیچان لیا۔ مجھے نام سے مخاطب کیا تو مجھے حیرانی ہوئی۔ حیران تو ہونا تھا اس لیے کہ کبھی میری اُس سے ملاقات نہیں ہوئی۔

مجھ سے پوچھنے لگا کہ آج کل ریاست مدینہ کے دارالحکومت میں کیا چل رہا ہے؟ میں نے کہا بھئی یہ تو وہاں کے حکمرانوں کو پتہ ہو گا۔ ریاست مدینہ تو یہاں سے ہزاروں کلو میٹر دور ہے۔ وہ ہنسا اور بولا نہیں سر ریاست مدینہ سے مراد پاکستان ہے۔

میرے سکوت کو توڑتے ہوئے بولا سر مجھے ایک بات بتائیں کہ وزیرستان میں پی ٹی ایم اور ریاست کے درمیان جو معاملات ہوئے جب میڈیا پر خبریں آنے لگی کہ ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا تو میں نے میڈیا سے اگاہی لینے کے لیے ٹی وی چینلز آن کیے تو ہر چینل پر ایک جیسی خبر چل رہی تھی۔ کیا یہ خبریں یا ٹکرز کسی خاص ادارے سے واٹس ایپ کیے جا رہے تھے۔

میں اس نوجوان کی باتیں انہماک سے سن رہا تھا وہ بلاتکان بولے جا رہا تھا اور مجھے حیران کر رہا تھا۔ اپنی بات جاری رکھے ہوئے وہ کہہ رہا تھا کہ لوگوں کے اندر شعور آ گیا ہے۔

پاکستان کی سب سے بڑی دولت اس کا نوجوان طبقہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔ عوام کے سامنے حقائق بیان نہیں کیے جا رہے۔ ایک خاص سوچ عوام کے ذہنوں میں کاشت کی جا رہی ہے اب وہ دور نہیں رہا کہ سرکاری ٹیلی ویژن، ریڈیو یا اخبارات کے ذریعے جو عوام کو بتایا جاتا لوگ اُس پر یقین کر لیتے۔ اب ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع سے مستفید ہو رہے ہیں۔ سرکار کے قبضے میں عوام کو اگاہی دینے کے جو ذرائع ہیں انھیں چھوڑیں نجی ٹیلی ویژن اور اخبارات پر بھی زبردست دباؤ ہے۔ اظہار کا گلا گھونٹ کے رکھ دیا گیا ہے۔ مگر یہ لوگ بھول گئے کہ اظہار کے اور بھی بہت سے ذرائع ہیں۔

وہ بغیر وقفہ کیے اپنی بات بیان کر رہا تھا میں نے اُس کی گفتگو میں خلل ڈالا اور پوچھا بتائیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔

کہنے لگا میرا تعلق پنجاب سے ہے اور میں یہاں قائد اعظم یونیورسٹی میں آئی آر کا طالب علم ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی ایم والوں کو سننا چاہیے کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں؟

 محمد علی جناحؒ اگر مکالمے کے ذریعے ریاست پاکستان حاصل کر سکتے ہیں تو یہاں مکالمہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیوں حکومتی وزراء منہ اپنے بیانات کے ذریعے منہ سے آگ اگل رہے ہیں۔

سر دیکھیں ایک معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو دوسرا ”کٹا“ کھول دیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا۔ اپ جانتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا تعلق اُس صوبے سے ہے جسے ریاست ڈنڈے کے زور پر ہانک رہی ہے۔ آج تک بلوچستان کے لوگوں کو سیاسی حقوق نہیں دیے گئے۔ طاقت کے زور پر اُن آوازوں کو کچلا جا رہا ہے جو اپنے حقوق کی مانگ کرتے ہیں۔ اُنھیں غداری کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ سر یہ لوگ غدار نہیں ہمارے اپنے ہیں انھیں سینے سے لگانے کی ضرورت ہے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔

نوجوان نے دکان میں موجود دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ آپ گاہکوں کی طرف توجہ دیں۔

چائے کی پیالی ختم ہو چُکی تھی اور دکان میں بھی گاہکوں کا رش بڑھ گیا تھا۔ میں نے اجازت لینا چاہی تو کہنے لگا سر آپ کو جب میں نے نام سے مخاطب کیا تھا تو آپ حیراں ہوئے۔ میں نے کہا جی تو کہنے لگا کہ سر میں آپ کو پڑھتا ہوں۔ سر جاتے جاتے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ غصہ نفرت کو جنم دیتا ہے نفرت بغاوت کو اور بغاوت طاقت کو کُچل دیتی ہے۔

دکان سے باہر نکلتے وقت سوچ رہا تھا کہ اج کے جدید دور میں لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ سچ بات کسی نہ کسی طرح لوگوں کے سامنے آ جاتی ہے اور جب سچائی کا پتہ چلتا ہے تو لوگوں کا اداروں پر سے اعتماد ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے طاقتور حلقوں کو چاہیے کہ وہ سچ قوم کے سامنے رکھیں

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui