پاکستانیوں کے مغالطے


یاسر پیرزادہ ایک معروف دانشور، مصنف، کالم نگار کی حیثیت سے ملک کی سیاسی اور سماجی اشرافیہ میں ایک منفرد نام رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر بیوروکریٹ ہیں مگر لکھنے اور پڑھنے کا جنون رکھتے ہیں اور اسی جنون کی بنیاد پر اپنی تحریریوں کی مدد سے نئی نسل کی علمی و فکری راہنمائی کرنے والوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اپنی تحریروں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے ہیں اور ان کو پسند کرنے والے اور ان پر تنقید کرنے والے بھی موجود ہیں۔

ایک اچھے لکھاری کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں اپنے حمایت اور تنقید کرنے والوں کا حلقہ رکھتے ہیں۔ بہت زیادہ عملی سیاست پر لکھنے کی بجائے وہ مستقل موضوعات پر لکھتے ہیں اور سیاست سے ہٹ کر سماجیات اور معاشرتی مسائل سمیت انتہا پسندی، دہشت گردی، مکالمہ کے کلچر کا فقدان اور عدم برداشت رواداری جیسے اہم موضوعات ان کی تحریروں کا خاصہ ہوتا ہے۔

یاسر پیرزادہ کا کمال یہ ہے کہ وہ جذباتیت کی بجائے عقل ودانش کی مدد سے موضوعات کا خوب چناؤ کرتے ہیں اور معاشرے سے جڑے اہم اور حساس نوعیت کے مسائل پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ پڑھنے والوں کو بہت زیادہ ذہنی الجھاؤ میں رکھنے یا بے مزہ انداز میں بات کرنے کی بجائے ہلکے انداز میں پڑھنے والوں کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے مشکل بات کو آسان انداز میں کرکے داد حاصل کرتے ہیں۔ معاشرے میں انتہا پسندی کے تناظر میں جو ”بیانیہ کی جنگ“ پر بحث ہورہی ہے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ یاسر پیرزادہ ان چند لکھاریوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتدا ہی سے اس مسئلہ پر تواتر سے اور بے لاگ انداز میں لکھا اور ان معاملات پر ان کی گرفت کو بھی کمال کا درجہ حاصل ہے۔

یاسر پیرزادہ کی ایک حالیہ کتاب ”پاکستانیوں کے مغالطے“ پڑھنے کا موقع ملا جو ان کے مختلف کالموں کا مجموعہ ہے اور ان میں سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی مسائل سمیت علمی معاملات پر سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔ اس کتاب کو ساگر پبلیشرز نے شائع کیا ہے۔ کتاب بنیادی طور پر تین حصوں پر تقسیم ہے۔ پہلا حصہ ”میں تم اورپاکستان ہے“ اس میں پاکستان، بھارت، قائد اعظم، اقبال اور سقوط ڈھاکہ جیسے اہم اور حسا س موضوعات پر تحریریں موجود ہیں۔ دوسرا حصہ ”ملا فلسفی اور سائنس“ ہے۔ تیسرا حصہ بالغوں کے لیے ہے جن میں پدر سری، شادی، مرد عورت، ناسٹلجیا، اور کچھ سماجی موضوعات جن میں تعلیمی مغالطے، فلم، ڈرامے اور متفرق کالم موجود ہیں۔

یاسر پیرزادہ مزاح کا خوب مزاج رکھتے ہیں اور پڑھنے والوں کو بھی اپنی سنجیدہ تحریروں میں بھی مزاح کا سہارا لے کر ان کی دلچسپی کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ وسیع مطالعہ ان کی خوبی ہے اور ایک ہی وقت میں کئی موضوعات پر پڑھنا ان کی پرانی عادت ہے۔ دلیل اور شواہد کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرنا اور بلاوجہ فکری الجھاؤ میں نہ خود رہتے ہیں اور نہ پڑھنے والوں کو کرتے ہیں۔ البتہ لکھتے وقت ایسے تنقید ی سوالات اٹھاتے ہیں جو عملی طور پر ہماری روایتی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کو اپنی تحریروں پر تنقید کا بھی خوب سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات معاملہ فتووں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ لیکن مکالمہ کے حامی یاسر پیرزادہ مکالمہ کے کلچر کو ہی فروغ دینے کی جدوجہد کا حصہ ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر معاشرے میں ایک بڑی مثبت تبدیلی کو دیکھنے کے خواہش مند بھی۔

اس کتاب میں شامل ایک مضمون ”پاکستانیوں کے پانچ سماجی رویے“ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ توہم پرستی، ہر بات کو خفیہ رکھنے کی عادت، وچلی گل دس یعنی اندر کی بات بتاو، پاپولر بحث میں اپنے دل کی بات نہ کرنے کی روش اور سرعام گالیاں بکنا شامل ہے۔ ایک بات خوب لکھی کہ اندر کی بات بتاؤ۔ یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ہمیں باہمی گفتگو کے دوران دوسروں کی بات پر کتنا اعتماد ہوتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ وہ اندر کی بات کو چھپا رہا ہے اور ہم بار بار اسے کریدنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معاشرے میں سیاسی اور سماجی یا مذہبی تناظر میں توہم پرستی کا عنصر بہت مضبوط ہے اور اس کی بنیاد پر عقلی مباحث بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح اسی کتاب میں ایک اور مضمون ”پاکستانیوں کی پانچ عادات“ میں لکھتے ہیں کہ خود ساختہ راہنما، سہل پسندی، خوش خوراکی، حس مزاح اور سماجی سطح پر عوامی تعلقات کو بنانے کا عمل شامل ہے۔ ویسے خود ساختہ راہنما یہ عمل اوپر سے لے کر نیچے تک موجود ہے اور ہر فرد بہ صرف خو د کو راہنما تسلیم کرتا ہے بلکہ اپنے آپ کو سماج کے لیے ناگزیر بھی سمجھتا ہے۔

اصل میں ہمارا مسئلہ تعلیم کا عمل ہے۔ جو تعلیم ہم دے رہے ہیں اس میں جذباتیت اور تعصب کا پہلو نمایاں ہے۔ تحقیق اور علم فہم و فراست یا متبادل سوچ کو تسلیم کرنے کا عمل بہت کمزور ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں جو کچھ شعوری طور پر سماج میں نظر آتا ہے اور جس پر ہم بہت تنقید بھی کرتے ہیں اس کی وجہ ناقص تعلیمی نظام ہے جو سوچ اور فکر کی بجائے رٹے پر بنیاد کرتا ہے۔ سماجی شعور بنیادی طور پر تعلیم، استاد، نصاب، عالم اور سیاسی و سماجی دانشوروں یا رائے عامہ بنانے والوں کی مدد سے بڑھتا ہے، لیکن یہاں تو بڑا بحران ان ہی اہل دانش میں ہے جو خود بھی تقسیم ہیں اور دوسروں کو بھی تقسیم کرنے کا سبب بن کر سماج کو جو ڑ نہیں بلکہ توڑ رہے ہیں۔

اس پر مصنف تین فکری تعلیمی مغالطوں کا ذکر کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ”اول پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کسی قوم نے غیر زبان میں علم حاصل کرکے ترقی نہیں کی، دوئم ہمارا ٹیلینٹ انگریزی کی وجہ سے ابھر کر سامنے نہیں آتا اور سوئم حکمران طبقہ کی زبان انگریزی ہے۔ بنیادی طور پر یاسر انگریزی کی تعلیم پر زور دیتے ہیں اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں لیکن کسی پر زبردستی تعلیم کے نا م پر کسی بھی زبان کو مسلط کرنا اور طبقاتی مسئلہ بنانا بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔

پاکستان کیسا ہونا چاہیے اس پر یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں کہ ”پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا، خود قائد اعظم سے بڑا جمہوریت پسند اور قانون پسند کوئی نہیں گزرا، سواگر آج پاکستان کے عوام اس ملک کو ووٹ کی طاقت سے مذہبی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو سو بسمہ اللہ، گھوڑا بھی حاضر ہے اور میدان بھی، لیکن اگر پاکستان کے عوام وہ چاہتے ہیں جو قائد نے 11 اگست کی تقریر میں فرمایا تو ووٹ کی کے ذریعے اسے نافذ کیا جانا چاہیے، کوئی لبرل طالع ازما یا مسلح گروہ ہمیں نہ بتائے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔

“ مصنف مزیدپانچ سماجی رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں دوسروں کے لیے کڑا امتحان، رول ماڈل کی تضحیک، محبت میں بہت ڈیمانڈنگ ہیں، عدم برداشت اور خود کو عقل مند سمجھنا شامل ہے۔ اسی طرح و ہ سماج میں سات تضادات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جن میں ٹیکس چونی اور سہولتیں امریکہ والی، سب سے پہلے فلسطین، امریکہ قابل نفرت، تبلیغ صرف ہمارا حق ہے، کوئی مسلمان ایسا نہیں کرسکتا، اخلاقیات صرف بہنوں کے لیے اور تم ایجاد کرو اور ہم عیش کریں گے۔

بنیادی طور پر سماجی رویوں کی تشکیل ایک اہم موضوع ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس پر خو ب قلم اٹھایا ہے۔ مگر سماجی رویوں کی تشکیل میں ہمارا سیاسی بیانیہ بہت کمزور ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں عملا سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کا جو کام ہے وہ کرنے کی بجائے وہ محض ذاتی مفادات کے تحت کام کرتے ہیں۔ استاد، دانشور، قلم کار، صحافی، علمائے کرام اور والدین سب ہی ادارے زوال کا شکا رہیں اور معاشرتی سطح پر تربیت کے فقدان نے ہمیں عملی طو رپر کھوکھلا کردیا ہے۔ یہ جنگ علمی اور فکری بنیادوں پر لڑی جانی ہے لیکن ہم محض جذبات کی بنیاد پر اس جنگ میں حصہ لے کر حالات کو مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

یاسر پیرزادہ کی ایک کتاب ”بیانیہ کی جنگ“ میں پڑھ چکا ہوں اور جس انداز سے انہوں نے انتہا پسندی کا پوسٹ مارٹم کیا ہے وہ قابل داد ہے مگر سوال یہ ہی ہے کہ ان تمام تر حالات جن کی تصویر یاسر پیرزادہ نے کھینچی ہے اس تناظر میں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ کیونکہ جنہوں نے معاشرے کو تبدیل کرکے ایک متبادل فکر دینی ہوتی ہے وہ خود ہی فکری و علمی انحطاط کا شکار ہیں اور یہی ہمارا المیہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).