سائنس جوتے کی نوک پر یا مفتی


بجا فرمایا مفتی صاحب نے کہ ہم سائنس کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ہم نے اس کے علاوہ آج تک اور کیا ہی کیا ہے۔ سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھا کوئی ڈھنگ کا ادارہ بننے دیا نہ کوئی عالمی سطح کی یونیورسٹی۔ کسی صاحب علم کو گھاس ڈالا نہ سا ئنس دان کو منہ لگایا۔ ایک درویش جس کاماننا تھا کہ قرآن حکیم کا آٹھواں حصہ سائنس پر ہی مشتمل ہے اس نے اسی نہج پر سوچتے قرآن کریم سے راہنمائی لیتے ہوئے دنیا کے سب سے بڑے سائنسی انعام پرجا ہاتھ ڈالا۔ دنیا معترف ہوگئی۔ اس کے لئے تمام ملکوں نے اور ہر بڑی یونیورسٹی نے اپنے دروازے کھول دیے۔

ہم نے پہلے بھی یہی کہا تھا کہ سائنس ہمارے جوتے کی نوک پر۔ ہم نے اس کے نوبل انعام لانے کے بعد بھی یہی کہا سائنس ہمارے جوتے کی نوک پر۔ اسے پاکستان میں جینے دیا نہ بعد مرنے کے اسے قبول کیا۔ مان لیا ڈاکٹر سلام کا تو علم کافر تھا۔ اس کا لایا ہوا نوبل انعام بھی ہمارے ایمانوں کے لئے خطرہ تھا۔ پر ملالہ کا نوبل انعام بھی ہم نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ اسے بھی یہودی ایجنٹ اور مغربی طاقتوں کی سازش قرار دیا۔ سائنس اور سائنسدان دونوں ہمارے جوتے کی نوک پر۔

علم انبیاء کی میراث ہے۔ سب سے بڑھ کر نبی رحمت ﷺ نے علم کی فضیلت اہمیت اور اس کے حصول پر زور دیا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے متبعین کو حصول علم کے لئے دوردراز ملکوں میں نکل جانے کی تحریک فرما ئی۔ یہاں تک کہ اگر علم کے لئے چین بھی جانا پڑے تو چلے جاؤ۔ کوئی مفتی ہمیں بتائے گا کہ چین سے کون سا اسلامی علم مسلمانوں نے سیکھنے جانا تھا۔ کون سی تفسیر اور کون سی شرح چینیوں سے پڑھنی تھی۔ اگر کچھ سیکھنا تھا تو سائنس علوم اور دنیوی علوم ہی سیکھنے تھے۔ پر ہمیں کیا واسطہ علم اور سائنس سے۔ مفتی او رمولوی کے پاس منبر و محراب رہیں تو کافی ہیں۔ علمی اور سائنسی کام کافر کریں۔ وہ پڑھیں، علم سیکھیں زمین و آسمان کی کھال ادھیڑ دیں۔ ستاروں سے آگے کمند ڈالیں۔ تاریک سمندروں کی گہرائیوں میں اتر جائیں۔ پر ہمیں کیا علم اور سائنس ہمارے جوتے کی نوک پر۔

مفتیوں کی یاددہانی کے لئے قرآنی دعا ”رب زدنی علما کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرماتا چلا جا“ اور علم کے حصول کے سب سے بڑے حامی سرور کائنات ﷺ کی دعا ”رب ارنی حقائق الاشیا ء۔ کہ اے میرے پروردگار مجھے اشیاء کی حقیقتوں کا ادراک عطا فرما ’‘ ۔ پیش ہے۔ “ کافر ”سائنس دان اپنی عمریں اشیاء کی حقیقتوں کا سفر کرنے میں گزار دیں۔ ہمارے لئے نت نئی سہولیات پیدا کریں۔ ہم صبح ٹوائلٹ کی ٹونٹی کھولنے سے لے کر رات سونے تک سائنس کی مدد سے بنی سینکڑوں اشیاء استعمال میں لائیں۔ سائنس کی ایجاد ایئر کنڈیشنر کو فل چلا کر کمرہ ٹھنڈا کریں اور لمبی تان کر سو جائیں۔ پر ہمیں سائنس سے کیا لینا دینا۔ سائنس ہمارے جوتے کی نوک پر۔

مفتیوں نے ہمیشہ علم اور سائنس کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہا۔ ترکی میں ایک مفتی نے پرنٹنگ پریس کو جوتے کی نوک پر رکھا اور مسلمانوں کو جہالت کی صدیوں میں دھکیل دیا۔ اپنے ہاں بھی لاؤڈ اسپیکر کوحرام قرار دینے والے مفتی بکثرت تھے۔ آج ان مفتیوں کی روزی روٹی اس کے بغیر چلتی ہے نہ بنتی ہے۔ کیمرے کو حرام قرار دینے والے مفتی آج جب تک نامحرم لڑکیوں سے میک کروا کے ٹاک شوز میں لائیو گفتگو نہ فر ما لیں چین کی نیند سو نہیں سکتے۔ ان مفتیوں نے ہر نئی آنے والے تحقیق اور علم کو پہلے حقارت سے رد کیا لیکن پھر وہی تحقیق اور علم ان کو روندتا ہوا آگے نکل گیا۔ علم اورسائنس کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے دعوے کرنے والوں کو سائنس نے جوتے کی نوک پر رکھا۔ اور یہ پھر مفتی ہمیشہ پاؤں گھسیٹتے اور جوتے پٹخاتے ہی رہ گئے۔

رہا مسئلہ رویت ہلال کا تو ا س کے لئے رویت علمی اور رویت نظری کی اصلاحات معروف ہیں۔ رویت نظری یہ ہے کہ جب ہم چاند کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ یقینا اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ رویت علمی یہ ہے کہ ہم نے خود تو چاند نہیں دیکھا لیکن ہمیں ا س کا علم ہو گیا ہے۔ دوسروں کے دیکھ لینے یا اعلان ہو جانے سے ہمیں بھی معلوم ہوگیا۔

جب مفتی صاحب سائنس کی بنی دور بینوں سے چاند دیکھ کر کے اعلان فرماتے ہیں توان کا یہ اعلان باقی بیس کروڑ عوام کے لئے رویت علمی ہی ہوتی ہے۔ اور ہم سب مفتی صاحب کی رویت پر یقین کر لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مفتی یہ تو چاہتے ہیں کہ بیس کروڑ عوام رویت علمی کی بنیا دپر رمضان المبارک شروع کریں اور عید منائیں یا نہ منائیں۔ لیکن وہ خود رویت علمی اور سائنسی کو ماننے کے لئے تیا رنہیں۔ مطلب مفتی صاحب لوگوں کو بتائیں تو ٹھیک۔ سائنس مفتی صاحب کو بتائے تو حرام۔ اور سائنس ہمارے جوتے کی نوک پر۔

اگر یہی بات مفتی صاحب کے اعلان کے متعلق عوام کہیں تو سب کافر۔ جس چیز کو مفتی دوسروں پر تھوپتے ہیں وہ خود ایسے مفتیوں پر لاگو کیوں نہیں ہو سکتی۔ کیوں نہ مفتی کے اعلان کے ساتھ عوام اسی طرح کا سلوک کریں جس طرح کا حقارت آمیز سلوک مفتی علم اور سائنس سے کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).