تاریخی گرو نانک محل کی ”حقیقت“ اور بھارتی بوکھلاہٹ


چند دن پہلے پاکستان کے معروف نجی اخبار نے ایک خبر دی جس میں یہ کہا گیا کہ نارووال کے قریب تاریخی گرونانک محل کو وہاں کے باسیوں نے مسمار کردیا ہے اور اس بلڈنگ کے تاریخی دروازے، کھڑکیاں اور وینٹی لیٹرز اوقاف کے افسروں کی ملی بھگت سے مہنگے داموں بیچ دیے گئے۔ اس خبر نے بھارت میں کھلبلی مچا دی اور پنجاب کے سکھوں میں یہ تاثر پیدا کردیا کہ ایک طرف پاکستان کرتارپور کوری ڈور کھولنے کی بات کررہا ہے تو دوسری طرف ”۔ گرونانک محل“ کو مسمار کرکے سکھ قوم کی مذہبی جگہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ گرونانک محل کی حقیقت کیا ہے وہ آج پاکستان میں بسنے والے سکھ کمیونٹی اور خاص طور پر بھارت میں بسنے والے سکھ کمیونٹی کے لیے جاننا بہت ضروری ہے۔

تاریخی گرونانک محل نارووال کے علاقہ باٹھانوالہ میں واقع ہے، اس کا کل رقبہ چار کنال پر محیط ہے۔ چار کنال میں ایک ایک کنال کے چار پورشن تیار کیے گئے جو کہ تقریبا چار سو سال پرانے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تین پو رشنز کو مسمار کرکے وہاں نئی بلڈنگز تیار کرلی گئیں۔ ایک کنال اور ایک مرلے پر محیط گرونانک محل آخری بلڈنگ تھی جو اپنی اصلی حالت میں موجود تھی۔ 1947 کے بعد انڈیا سے ایک فیملی اٹھی اور پاکستان میں آکر اس گرونانک محل میں رہائش پذیر ہوگئی۔

اسی فیملی کی اگلی نسلیں اس بلڈنگ میں رہائش پذیر رہیں، یہاں بات قابل ذکر یہ ہے کہ جو فیملی اس بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوئی اس نے اس بلڈنگ کے نام (گرونانک محل ) کو تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی اس کا اندراج لوکل گورئمنٹ یا محکمہ اوقاف میں کرایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بلڈنگ کا ریکارڈ لوکل گورئمنٹ، اوقاف اور اس بلڈنگ میں رہائش پذیر فیملی کے پاس موجود نہیں ہے۔ یہاں تین سوال کھڑے ہوتے ہیں کہ اس بلڈنگ کا ریکارڈ لوکل گورئمنٹ کے پاس ہے؟ محکمہ اوقاف کے پاس ہے؟ یا وہ فیملی جو اس بلڈنگ میں رہائش پذیر ہے وہ مالک ہے؟ تو جواب تینوں صورتوں میں نفی میں ملتا ہے، تینوں کے پاس اس بلڈنگ کا ریکارڈ موجود نہیں تو ریکارڈ ہے کس کے پاس؟ کون مالک ہے اس بلڈنگ کا؟

پوری دنیا میں تقریبا 20 سے زائد مذاہب ہیں، مذاہب کے پیروکاروں کی تعداد کے مطابق سکھ ازم کا نمبر 9 ہے جس کے پیروکاروں کی تعداد تقریبا 2 کروڑ 30 لاکھ ہے۔ پاکستان میں بسنے والے سکھوں کی تعداد تقریبا 20 ہزار ہے۔ پورے ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں اقلیتوں کے تحفظ کا خیال پہلے کیا جاتا ہے اور باقی معاملات بعد میں دیکھے جاتے ہیں۔

گرونانک محل کو مسمار کرنے کی خبر سے بھارت میں موجود سکھوں کا غم و غصہ جائز ہے، مذہبی عقیدت واحد چیز ہے جسے منفی رنگ دے کر امن کے دشمن عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ گرونانک محل کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک خبر چھپی کہ تاریخی گرونانک محل کو مسمار کردیا گیا ہے تو امن کے دشمنوں نے فوری سے اس معاملے کو اٹھایا اور بھارت میں پاکستان کے خلاف ایک منفی فضاء قائم کردی جس سے کرتارپور کوری ڈور کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا تھا۔

پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی اور امن کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ بھارتی پائلٹ کو واپس کرکے پاکستان نے جس بڑے پن کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن افواہوں اور غلط انفارمیشن کی بنیاد پر منفی فضاء قائم کرنا، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نفرت کے بیج بونا کسی بھی حد تک ٹھیک نہیں ہے اس سے معاملات سلجھتے نہیں بلکہ الجھتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

میں بھارت کے پنجاب کے عوام سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ”گرونانک محل“ کا تعلق کسی بھی طرح سے گرونانک صاحب کی ملکیت ظاہر نہیں کرتا، یہ بلڈنگ کبھی بھی کسی مذہبی رسومات کو ادا کرنے کے لیے استعمال نہیں کی گئی۔ پاکستان میں جتنے بھی سکھ گرودوراے موجود ہیں سب کا ریکارڈ ”ای ٹی پی بی“ کے پاس موجود ہے، پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ اس بلڈنگ کا ریکارڈ موجود نہ ہو۔ اس بلڈنگ کا سکھ کمیونٹی سے تعلق صرف اور صرف اتنا ہے کہ اس کا نام ”گرونانک محل“ تھا۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان چونکہ امن کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے تو پاکستانی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس بلڈنگ کو مزید مسمار کرنے سے روکا جائے گا، اس بلڈنگ کو اوقاف میں درج کیا جائے گا اور اگر ممکن ہوا تو اس کو سکھ کمیونٹی کے لیے وقف کیا جائے گا اور ضرورت پڑی تو۔

یہاں کچھ سوالات بھارت کے عوام سے ہیں کہ کیا گرو کے پیروکار بھارت میں زیادہ ہیں؟ کیا پاکستان میں گرو کے پیروکار موجود نہیں؟ کیا سرحدوں کی وجہ سے گرونانک کے پیروکاروں، مذہبی عقائد میں کمی آجاتی ہے؟ کیا کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بسے سکھ کمیونٹی کے لوگوں کے مذہبی عقائد ملکوں کے ساتھ بڑھتے اور کم ہوتے ہیں؟ اگر گرونانک محل کا تعلق گرونانک دیو کی ملکیت کے ساتھ ہوتا یا مذہبی رسومات کی ادائیگی کی جگہ ہوتی تو پاکستان میں موجود سکھ اپنے حق کے لیے کھڑے ہوتے اور اس وقت تک پاکستان کی حکومت بھی ہل چکی ہوتی۔

کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں سے کوئی بھی ایک سکھ بھی اس چیز کے لیے کھڑا نہیں ہوا کہ گرونانک محل کو مسمار کیوں کیا گیا؟ کیونکہ وہ یہ سب جانتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈا ہے جو کچھ عناصر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کو برداشت نہیں کرپارہے، اپنی صفوں میں موجود ایسے لوگوں کو پہچانیے اور امن کو تباہ کرنے والے عناصر کی باتوں میں آنے کی بجائے ان کا منہ بند کیجیے، دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نفرت کا بیج بونے کی بجائے محبت اور امن کا پودا لگائیے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ بھارت کو محبت اور امن کا پیغام دیا، جنگ پر امن کو ترجیح دی۔ بھارت کی سرکار اور عوام کو بھی اب اس محبت اور امن کا ثبوت دینا ہوگا۔ مذہبی عقائد کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی سرکار نے بھارت میں موجود سکھ کمیونٹی کو اپنے فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی کا سوچا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو اس کو سبوتاز کرنا چاہتے ہیں اور بھارت اور پاکستان کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، امن تباہ کرنے کا بہترین طریقہ مذہب کو ہتھیار بنانا ہے۔ پاکستانی سرکار اور پاکستان کے عوام ہر مذہب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے مذہب کی تعلیم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).