کیا مقروض قوم کو مزید قرض لیناچا ہیے؟


آج کل عمران خان کی حکومت ہروقت قرض مانگتی نظر آتی ہے۔ سعودی عرب سے متحدہ عرب امارات سے قرض اور پھر چین سے مزید قرض۔ میڈیا میں ہر طرف قرضوں کے اعداد وشمار سننے اور پڑھنے کومل رہے ہیں۔ حفیظ شیخ کے مطابق گزشتہ چند ماہ میں ہم نے ( 9.2 ) بلین ڈالر کا انتظام تین دوست ممالک سے کرلیا ہے۔ اور اب مزید 6 بلین ڈالر کی بات عالمی بنک سے جاری ہے۔ گزشتہ 30 سالہ حکومتوں میں سے کسی نے بھی ملک کو اپنا سمجھ کر ڈیل نہیں کیا۔

عالمی اداروں کے پاس جانے کا مطلب دیوالیہ پن ہی ہوتا ہے۔ اور ہم یہ کام گزشتہ دہائیوں میں 21 دفعہ کرچکے ہیں اور اب اس کو بڑھا کر 22 کرنے جارہے ہیں۔ ملک اب مکمل طورپر Debt Trapمیں آچکا ہے۔ ہرشعبہ زندگی میں خسارے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ اب شاید ہی دنیا میں کوئی ملک ایسا ہو جس کی حالت پاکستان جیسی ہو۔ زرمبادلہ کی مقدار میں اضافہ صرف 3۔ ذرائع سے ہوتا ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہو۔ ترسیلات زرتیزی سے بڑھیں اور غیر ملکی سرمایہ دار اپنا سرمایہ پاکستان میں لائیں۔

برآمدات کا ٹیکسٹائل اشیاء کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بھی بڑا ذریعہ نہیں ہے اور نصف کے قریب 13۔ ارب ڈالر ہم اسی ذریعے سے حاصل کررہے ہیں۔ ترسیلات زربھی اب کم ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک سے اب پاکستانی واپس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ تیسرے ذریعہ سے ہم اس لئے فائدہ نہیں اٹھا سکتے کہ ہمارے ہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ماحول دوستانہ نہیں ہے۔ ہم نے کراچی کو کافی حد تک بزنس فرینڈلی بنا لیا تھا۔

لیکن بلوچستان کے مسائل پر اب بھی قابو نہیں پا سکے۔ فاٹا کے علاقے میں PTM نے ایک نیا مسٔلہ کھڑا کردیا ہے۔ پاکستان مسائلستان بن گیا ہے۔ ملک کے اندر سے اتنی آمدنی بھی حاصل نہیں ہوتی کہ ہمارے ہر طرح کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ اب تک جو غیر ملکی قرض ہم لے چکے ہیں۔ وہ 100 بلین ڈالر سے کم نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے 6۔ ارب ڈالر آنے کے بعد ہم سینکٹرہ کراس کرلیں گے۔ ہر قرض کی بنیاد سود پر ہے۔ حتیٰ کہ سعودیہ جیسے برادر ملک نے بھی ہمیں حرام سود پر ہی 3 ارب ڈالر قرض دیے۔ دنیا کی نظر میں قرض ایک کاروبار ہے۔ دینے والا ہمارا کتنا بھی قریبی ہو اس نے تو اپنا مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔ چین جس کے ہم ہروقت گن گاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی 2024 ء میں ہم سے 19۔ بلین ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کریگا۔ سی پیک کے پروجیکٹس میں اب آکر پتہ لگ رہا ہے کہ ریاستی سیکورٹی کی بنیاد پر کافی سرمایہ قرض کی شکل میں تھا۔ نواز شریف دورمیں یہ تبایا جارہا تھا کہ چینی کمپنیاں اپنے چینی بنکوں سے سرمایہ قرض لے کر پاکستان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔

آہستہ آہستہ اب سی پیک پر پڑے ہوئے پردے اٹھتے جارہے ہیں۔ 62۔ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان کے لئے کم اور چین کے اپنے مفاد میں زیادہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اب پاکستان اس قرض کے جال سے کیسے نکلے۔ پاکستان کانمبر ون مسٔلہ اب یہی ہے۔ یہ اب پوری قوم کا مسٔلہ بن چکا ہے۔ اگرموجودہ عمران خان حکومت گزشتہ حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیتی رہے گی تو اس سے قوم قرض کے جال سے باہر نہیں آسکتی۔ قومی اسمبلی میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بھی اس مقروض قوم کا تاثر مزید خراب ہورہا ہے۔

ایسا ملک جو 2 واضح دشمنوں میں گھرا ہوا ہو اور قوم قومی اسمبلی میں ایک دوسرے سے لڑتی نظر آئے۔ اس سے برا پیغام دوسروں کے لئے اور کیا ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانا حالات کو مزید خراب کرے گا۔ تمام بڑی پارٹیوں کو مل کر مذاکرات کرنے چاہیں (کس سے؟ مدیر)۔ تمام سیاسی اور معاشی معاملات پر گفتگو ہونی چاہیے۔ پارٹیوں میں موجود معاشی قیادت کوغیر ملکی قرضوں میں ڈوبی قوم کو گرداب سے نکالنے کے بارے سوچنا چاہیے۔

جب قوموں پر مشکل وقت آتا ہے تو تمام گروہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے ختم کردیتے ہیں۔ قرضوں میں ڈوبی ہوئی اس پاکستانی قوم پر اس سے برا وقت اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس صرف اس ایک مسٔلہ پر گفتگو کے لئے بلایا جائے۔ اس اجلاس کو رینکنگ بڑھانے والے میڈیا سے دور رکھا جائے۔ پارلیمنٹ میں موجود ماہرین اس مسٔلہ کے کچھ Out of box حل سوچیں۔ پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی بھی ممبران کی مدد کرے۔ پارلیمنٹ کے باہر کے معیشت دان اور مالی ماہرین سے بھی مدد لی جائے۔

غیرملکی قرضوں کے مسٔلہ کا حل مزید قرض لے کر نہ سوچا جائے۔ اس طرح تو ملک قرضوں کے گرداب میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔ تمام پارٹیاں اور ان کی قیادت مل کر کوئی ایسا حل سوچیں جوگھریلو(Indigenous) ہو۔ وہ 436 لوگ جن کے نام پانامہ کاغذات میں آئے تھے۔ کیا ان تمام کی پکڑ دھکڑ کا موقع ابھی نہیں آیا۔ ابھی تک صرف ایک ہی خاندان اس فہرست کا پکڑ میں آیا ہے۔ کچھ لوگ توملک کے اندر بھی موجود ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر ان سے بات کی جائے۔

لمبی عدالتی کارروائیوں کی بجائے کوئی ایسا ادارہ ہو جو ان سے ڈیل کرے اور ملک وقوم کے لئے ان سے اثاثوں کا ایک معقول حصہ وصول کر لیا جائے۔ عدالتوں کے مقدمات تو سالوں چلتے رہتے ہیں۔ وصولیاں برائے نام ہی ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں سے وصولی کے لئے کوئی Speedy طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ زرداری، ڈاکٹر عاصم، انورمجید پر مقدمات کئی ماہ سے چل رہے ہیں۔ وصول تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ وصولیوں کا کوئی موثر طریقہ ڈھونڈنا ضروری ہے۔

ایسے ہی وصولیوں کے لئے پنجاب کے لیڈروں سے بھی بات ہونا ضروری ہے۔ ان پر بھی صرف مقدمات ہی چل رہے ہیں۔ شریف برادرز سے بھی ابھی تک ریاست نے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کیا۔ ملک کو تو تب ہی فائدہ ہوگا اگر بڑی بڑی رقمیں وصول ہوں۔ اور یہ تمام رقومات غیر ملکی قرض واپس کرنے کے لئے استعمال کی جائیں۔ اگر غیر ملکی قرض کسی حکومت کے زمانے میں لے کر خوردبرد کر لئے گئے ہیں۔ ان کی کڑی تحقیقات ہوں۔ قومی اداروں سی۔ آئی۔ اے اور نیب کو اپنی کوششیں تیز کرنی پڑیں گیں۔ کیا مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے زیر استعمال بڑی بڑی رہائشوں کی فہرست بناکر انہیں سیل نہیں کر سکتیں۔ اب تک ہم صرف سنتے ہی آئے ہیں۔ کہ گورنرہاؤس اور مختلف ضلعوں میں موجود کمشنرز ہاوسز اور ڈپٹی کمشنر ہاؤسز کو بیچ دیا جائے گا۔ افسرز کی رہائش کے لئے بہت ہی چھوٹی چھوٹی رہائش گاہیں متعین کی جائیں۔ اس شعبے سے ہم کافی وسائل اکٹھا کرسکتے ہیں۔ جنرلز کو بھی بڑے گھروں کی بجائے چھوٹے گھروں میں رہنے کا کہا جائے۔ (سندھڑی کے قبرستان میں دفن محمد خان جونیجو سے مشاورت کر لیں جس نے 1986 میں جنرلز کے لئے چھوٹی گاڑیوں کی تجویز دی تھی – مدیر)

پارلیمنٹ اور بھی کئی طریقے سوچ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کی طرف سے پوری 22 کروڑ کی عوام کو غیر ملکی قرض اتارنے کے لئے اپیل کی جائے۔ اس کے لئے جدید ترین شکل میں ”قرض اتارو فنڈ“ قائم کیاجائے۔ پارٹیوں کے تمام لیڈر اور پارلیمنٹ کے ارکان اپنی جیب سے شروع کریں۔ وزیراعظم، کابینہ کے ارکان اور بیوروکریٹ مادروطن کے لئے قربانی کے جذبے سے اس فنڈ میں بڑی بڑی رقم جمع کروائیں اور کرواتے چلے جائیں۔ پارٹی لیڈروں اور علما پر مشتمل ٹیمیں ہر ضلعی ہیڈ کواٹر میں جائیں۔

وہاں کے امراء سے اپیل کریں کہ وہ ملک کے لئے قربانی دیں۔ امراء کے دلوں پر دستک دینے کے لئے مولانا طارق جمیل جیسے موثر گفتگو کرنے والے لوگوں سے مدد لی جائے۔ جب وصول کرنے والے بنکرز ساتھ ہوں گے تو بات تیزی سے بنتی چلی جائے گی۔ کتنا بڑا ہے۔ ہماراملک اور اس میں بسنے والے کروڑوں امیر لوگ۔ عمران خان کو توخود فنڈ ریزنگ کا بڑا تجربہ ہے۔ اپنی اسی مہارت کو وہ قرض اتارو مہم کے لئے استعمال کریں۔ یہ مہم کئی سال جاری رہے کیا اتنی بڑی قوم کے سامنے 6 ارب ڈالر بھی کوئی مسٔلہ ہے۔ یوں ہم آئی ایم ایف کے آئندہ ٹریپ میں آنے سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ مشکل حالات میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے تیارہوجاتی ہے۔ میڈیا بھی سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرے۔ لکھنے والوں کا اثر بھی بڑا کام کرتا ہے۔ پوری قوم ایک مہم میں شریک ہوجائے۔ خواتین بھی نقدی اور سونے کی شکل میں ادائیگی کریں۔ فنڈ کا میکانزم موثر ہونا ضروری ہے۔ غیر ملکوں میں مقیم پاکستانی پہلے بھی قربانی دیتے رہتے ہیں۔

امراء اور درمیانے طبقہ کے لوگ اپنے اثاثوں اور وسائل کا اگر 20 فیصد حصہ بھی فنڈ میں شامل کریں تو پاکستان کوقرضو ں کے گرداب سے بچایا جاسکتا ہے۔ سابقہ تمام حکومتیں واجب الادا قسطوں کو ادا کرنے کے لئے مزید غیر ملکی قرض کا طریقہ اختیار کرتی رہی ہیں۔ ان لیڈروں اور پارٹیوں نے اپنا اپنا دورتو گزار لیا لیکن ریاست پاکستان کو وہ قرضوں میں ڈبو کرچلے گئے۔ اس گرداب سے نکلنے کے لئے ہم پاکستانیوں کو Out of box طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔

غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرض لینا ملک کو فروخت کرنے کے برابر ہے۔ حکومت کو چاہیے وہ مرکزی ہویاصوبائی اپنے ہرمحکمہ کے اخراجات میں ایک بڑا کٹ لگائے۔ بنیادی تنخواہ کے علاوہ باقی سہولیات چند سالوں کے لئے ختم کردی جائیں۔ یہ رقومات بھی ”قرض اتاروفنڈ“ میں جمع ہوتی جائیں۔ مسلح افواج کے افسرز بھی اپنے غیر ضروری اخراجات کم کریں۔ قرض اتارو مہم پوری قوم کی آواز بننا ضروری ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا حل مزید قرض لینے میں نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).