سوشل میڈیا کے دانشور


وطن عزیز کے تمام ہم وطن جس طرح آج کل معیشت اور مہنگائی کے کوہ ِ گراں کو عبور کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور ابھی بھی معیشت کے قرض کے پہاڑ کو عبور نہیں کر پائے، ایسے میں فکر و ادب اور دانشوری جیسے روکھے اور خشک عنوانات پر بات کرنا یقینا مجھ جیسے فارغ بلکہ فارغ البال لوگوں کا خاصہ ہی ہو سکتا ہے۔ سو معیشت، مہنگائی، مسائل، سیاست جیسے تروتازہ عنوانات کسی اور وقت پہ اٹھا رکھتے ہیں۔

لکھنا صرف جذبات اور الفاظ کا اظہار نہیں بلکہ میرے لئے لکھنے کا عمل ایک سفر ہے۔ لکھنے سے انسان کے اندر شعور و آ گہی اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔ احساسات و جذبات کو جِلا ملتی ہے۔ لکھنے کا عمل مجھے جاننے، سمجھنے، پرکھنے اور دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سو جب بھی دل کیا قلم اٹھائی اور لکھنا شروع، بغیر اس حسرت سے کہ کوئی پڑھے گا بھی یا نہیں؟

فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پہ آئے روز مختلف تحریریں پڑھنے اور تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حقیقی اور مستند دانشوروں کے علاوہ کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ موجود دانشوروں کے بڑھنے کی رفتار ہماری تعلیمی خواندگی بڑھنے کی رفتار سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ اگر سوشل میڈیا کا دروازہ کھولیں تو ہر آئی ڈی پر علم و دانش کے ایسے ایسے موتی بکھرے ملیں گے کہ خدا کی پناہ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد مجھے مرشد طاہر شیرازی صاحب کی کسی محفل میں کی ہوئی بات یاد آ جاتی ہے کہ ”زیادہ کتابیں پڑھنے سے زیادہ خطرناک یہ ہوتا ہے کہ آپ زندگی میں صرف ایک کتاب پڑھیں“

الحمدللہ آج کل بحثیت پاکستانی ہر جوان خود کو اقبال کا شاہین سمجھتا ہے تو اسی وجہ سے دانشوری اور مفکری جے تمام حقوق ان شاہین صفت جوانوں کو حاصل ہیں، حالانہ دانشوری اور مفکری کی تشریح تک انہیں معلوم نہیں۔ بہرحال فیس بک کی آئی ڈی کی تکمیل کے بعد یہ اقبال کے نام نہاد شاہین دانشوری کے عظیم رتبے پہ فائز ہو جاتے ہیں اور ان کی دانشمندی کی چرچے ہر آئی ڈی پر اور ہر پوسٹ پہ نظر آتے ہیں۔ حالانکہ پس پردہ وہ کسی بھی سابقہ اور لاحقہ نام کی شاہین کو ڈھونڈنے میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ ہر اس بندے کے ساتھ دانشور کا سابقہ لگ جاتا ہے جس کے فالورز یعنی پیروی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔

کچھ ایسے نام نہاد دانشوروں کو بھی جانتا ہوں جو قلم سے آزار بند ڈالتے ڈالتے دو چار پوسٹیں لکھ کہ دانشور کا لقب چھیننے میں کامیاب ہو گئے، جس طرح پہاڑی بکرے ہر جھاڑی میں منہ مارتے ہیں اسی طرح آپ کو یہ دانشور ہر موضوع پر رہنمائی اور بحث کرتے ملیں گے، اپنی پوری جہالت اور سارے خبط ِ عظمت کے ساتھ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ انہی نام نہاد دانشوروں کی وجہ سے سنجیدگی اور علمی روویوں سے بہت دور جا رہا ہے۔ ٹچ سکرین موبائل پکڑنے والے یہ شاہین قلم کی طاقت سے محروم ہیں اور یقین جانیئے ایسے لوگ مجھے قلم اور کاغذ کے قاتل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ شاہین کاغذ پہ اردو لکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں بلکہ اردو لکھنا تو دور کی بات اردو بولنا بھی پسند نہیں کرتے، اگر کوئی لکھنے کی جسارت بھی کرتا ہے تو وہ بھی روومن اردو لکھتا ہے۔

اس قسم کے شاہین دانشور دو قسم کی تحریریں سوشل میڈیا پہ تحریر کرتے ہیں۔ ایک وہ جو ہر موضوع پر فِٹ آجائے، دوسری وہ جس پر ہر موضوع کو فِٹ کیا جائے، یعنی ایک تحریر بور کر دیتی ہے اور دوسری شدید بور کر دیتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسی تحریریں گفتگو برائے گفتگو، مستعار مانگی ہوئی سوچ پہ مبنی، ادھار کے نظریات کی حامل تحریریں پڑھنے کے بعد ”پڑھنے سے ایمان تک اٹھا دیتی ہیں“۔

فیس بک ایسا لطیف فہم میڈیم ہے جس کے نام میں تو کتاب کا تزکرہ ہے لیکن سب سے زیادہ کتاب کی بے توقیری کا باعث بھی یہی ہے۔ فیس بک کے شاہینوں اور مفکروں کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں کتابیں کون پڑھتا ہے؟ کتابوں کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن پڑھتا کوئی نہیں۔ بس کسی لائبریری میں جاکر چند کتابوں کے ساتھ یا کسی مستند لکھاری یا قلمکار کے ساتھ سیلفی لے کر فوری اپلوڈ کر کے دانشوری کا تمغہ، لائکس اور کمنٹس کی صورت میں فوراحاصل کر لیتے ہیں۔

جب وہ کوئی اپنے مطابق دانشمندی، علمی یا فکری پوسٹ کرتے ہیں تو ہم جیسوں کے استعجاب میں تجسس کا رنگ چوکھا ہو جاتا ہے اور ہونٹوں کی بگڑی ہو مسکراہٹ اور پیشانی پہ بَل کھاتیں تیوریاں دراصل یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ صاحب پوسٹ کو اپنی فکری، دانشوری اور علمی تشنگی کے لئے کسی ایک کتاب کی نہیں بلکہ بہت ساری کتب میں غوطہ لگانے کی ضرورت ہے تاکہ علم و دانائی، فکروسوچ کی جستجو کی سیڑھی پہ اپنا پہلا قدم رکھ کے اپنا سفر جاری رکھ سکے، حالانکہ وہ خود کو علمی سیڑھی کے آخری قدم پہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔

سوشل میڈیا کی آمد سے پہلے اخبارات، رسائل اور جرائد میں تحریر شائع کرانے کے لئے خاصی ریاضت کرنی پڑتی تھی، زبان کی درستی، منفرد بیانیہ، قواعد کے ضابطے، تحقیق طلب زاویے، موضوع سے انصاف اور دیگر پہلوؤں سے تحریر پر کام کرنا پڑتا تھا اس کے بعد بھی ضمانت نہیں ہوتی تھی کہ تحریر شائع ہوگی بھی یا نہیں؟ کیونکہ پہلے لکھاری اور قاری کے درمیان مدیر، ناشر، پروف ریڈر بطور فلٹر کا کام کرتے تھے لیکن اب لکھاری خود ہی کاتب، خود ہی ناشر، خود ہی پروف ریڈر، خود ہی مدیر بن گیا ہے اور اس بات سے بالکل نابلد ہے کہ حقیقی دانشور انسانی فکر کی حدود میں توسیع کرتے ہیں اور انسانی شعور و ارتقاء کے سفر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر سوشل میڈیا پہ المیوں کے جنم خوردہ ان دانشمندوں نے ادبی، فکری، علمی اور دانشمندی کا سفر جاری رکھا تو وہ دن دور نہیں کہ حقیقی علمی، ادبی، فکری اور دانشوری کی قبر پہ فاتحہ پڑھنے کے لئے کوئی ذی شعور نہیں بچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).